ذِكْرُ مَا يُوجِبُ الْغُسْلَ وَمَا لَا يُوجِبُهُ ذِكْرُ اغْتِسَالِ الْمُسْتَحَاضَةِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ امْرَأَةً مُسْتَحَاضَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِيلَ لَهَا أَنَّهُ عِرْقٌ عَانِدٌ فَأُمِرَتْ أَنْ تُؤَخِّرَ الظُّهْرَ وَتُعَجِّلَ الْعَصْرَ وَتَغْتَسِلَ لَهُمَا غُسْلًا وَاحِدًا وَتُؤَخِّرَ الْمَغْرِبَ وَتُعَجِّلَ الْعِشَاءَ وَتَغْتَسِلَ لَهُمَا غُسْلًا وَاحِدًا وَتَغْتَسِلَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ غُسْلًا وَاحِدًا
کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟
استحاضہ والی عورت کے غسل کا ذکر
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ ایک عورت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں استحاضہ (بے قاعدہ خون آتا) تھا۔ اسے کہا گیا: تحقیق یہ ایک سرکش رگ ہے۔ اور اسے حکم دیا گیا کہ ظہر کو مؤخر کرے اور عصر کو مقدم کرے اور ان دونوں کے لیے ایک غسل کرے۔ اسی طرح مغرب کو مؤخر کرے اور عشاء کو جلدی پڑھے اور دونوں کے لیے ایک غسل کرے اور صبح کی نماز کے لیے ایک غسل کرے۔
تشریح :
(۱) ’’اسے کہا گیا۔‘‘ ظاہر ہے کہنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے کیونکہ آپ کے دور میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آپ ہی سے مسئلہ پوچھا کرتے تھے۔ واللہ أعلم۔ (۲) ’’سرکش رگ‘‘ چونکہ استحاضہ شروع ہو جائے تو رکنے کا نام ہی نہیں لیتا، اس لیے رگ کو سرکش کہا گیا ہے۔ بعض نے اس کے معنی ’’نہ رکنے والی‘‘ کیے ہیں، یہ معنی بھی درست ہیں۔ (۳) اس حدیث میں مستحاضہ عورت کو ایک دن میں تین غسل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے مگر یہ مستحب اور اختیاری چیز ہے، واجب نہیں کیونکہ بعض روایات میں یہ لفظ بھی ہیں: ’’اگر تو طاقت رکھے۔‘‘ دیکھیے: (سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: ۲۸۷) ورنہ واجب تو صرف وضو ہے۔ (۴) ایک نماز کو مؤخر کرنا اور دوسری کو جلدی پڑھنا، یہ جمع صوری ہے، یعنی پہلی نماز اپنے آخری وقت میں اور دوسری نماز اپنے اول وقت میں۔ اس طرح دونوں نمازیں اپنے اپنے اصل وقت ہی میں پڑھی جائیں گی۔ صرف ظاہراً جمع کی گئی ہیں۔
(۱) ’’اسے کہا گیا۔‘‘ ظاہر ہے کہنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے کیونکہ آپ کے دور میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آپ ہی سے مسئلہ پوچھا کرتے تھے۔ واللہ أعلم۔ (۲) ’’سرکش رگ‘‘ چونکہ استحاضہ شروع ہو جائے تو رکنے کا نام ہی نہیں لیتا، اس لیے رگ کو سرکش کہا گیا ہے۔ بعض نے اس کے معنی ’’نہ رکنے والی‘‘ کیے ہیں، یہ معنی بھی درست ہیں۔ (۳) اس حدیث میں مستحاضہ عورت کو ایک دن میں تین غسل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے مگر یہ مستحب اور اختیاری چیز ہے، واجب نہیں کیونکہ بعض روایات میں یہ لفظ بھی ہیں: ’’اگر تو طاقت رکھے۔‘‘ دیکھیے: (سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: ۲۸۷) ورنہ واجب تو صرف وضو ہے۔ (۴) ایک نماز کو مؤخر کرنا اور دوسری کو جلدی پڑھنا، یہ جمع صوری ہے، یعنی پہلی نماز اپنے آخری وقت میں اور دوسری نماز اپنے اول وقت میں۔ اس طرح دونوں نمازیں اپنے اپنے اصل وقت ہی میں پڑھی جائیں گی۔ صرف ظاہراً جمع کی گئی ہیں۔