كِتَابُ الصِّيَامِ كَمْ الشَّهْرُ وَذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى الزُّهْرِيِّ فِي الْخَبَرِ عَنْ عَائِشَةَ صحيح أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ أَقْسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَى نِسَائِهِ شَهْرًا فَلَبِثَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ فَقُلْتُ أَلَيْسَ قَدْ كُنْتَ آلَيْتَ شَهْرًا فَعَدَدْتُ الْأَيَّامَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ
کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل
(قمری اور اسلامی)مہینہ کتنے دن کا ہوتا ہے؟اور حضرت عائشہ کی اس حدیث میں زہری کے شاگردوں کا اختلاف
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ (ایک دفعہ) رسول اللہﷺ نے (ناراضی کی بنا پر) قسم کھا لی کہ اپنی بیویوں کے پاس ایک مہینہ تک نہیں جاؤں گا۔ آپ انتیس دن تک اسی حال میں رہے۔ (پھر میرے پاس تشریف لائے) میں نے (یاد دہانی کے طورپر) عرض کیا کہ آپ نے ایک ماہ کی قسم نہیں کھائی تھی میں نے تو انتیس دن شمار کیے ہیں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔‘‘
تشریح :
(۱) اختلاف یہ ہے کہ زہری کے بعض شاگردوں نے اس حدیث کو حضرت عائشہؓ کی طرف منسوب کیا ہے اور بعض نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف، تاہم یہ اختلاف ضرر رساں نہیں، حدیث دونوں سے صحیح طور پر ثابت ہے۔ (۲)’’قسم کھالی۔‘‘ اس طرح کی قسم کو شرعی زبان میں ’’ایلائ‘‘ کہتے ہیں۔ خاوند بیوی میں اگر کوئی ناچاقی ہو جائے تو خاوند اپنی بیوی سے وقتی طور پر تعلقات منقطع کر سکتا ہے مگر گھر میں رہنا ضروری ہے تاکہ عورت کوئی غلط قدم نہ اٹھائے۔ یہ کیفیت زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک رہ سکتی ہے۔ اگر قسم اس سے زیادہ کی ہو تو قسم توڑنا فرض ہے اور چار ماہ کے بعد فوراً تعلقات قائم کرنا ضروری ہے ورنہ اسے طلاق دینا پڑے گی۔ وہ دونوں میں سے کوئی بھی کام نہ کرے تو قاضی یا حاکم اپنی طرف سے اسے مصاحبت پر مجبور کرے گا یا طلاق نافذ کر دے گا اور وہ عورت اس سے مستقل طور پر جدا ہو جائے گی۔ اگر مدت کم ہو تو قسم پوری کر سکتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے صرف ایک ماہ کی قسم کھائی تھی، لہٰذا آپ نے قسم پوری کی۔ اس واقعے کی تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔ (۳)’’مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔‘‘ یعنی قمری مہینہ جو احکام اسلامی میں معتبر ہے، تیس دن کا بھی ہوتا ہے اور انتیس کا بھی، لہٰذا انتیس دن کو بھی کامل مہینہ شمار کیا جائے گا۔ ایک مہینے کی قسم شرعاً انتیس دن کے لیے ہوگی۔ یہ اس جملے کا صحیح مفہوم ہے۔ بعض اہل علم نے یوں معنی کیا ہے کہ ’’یہ مہینہ انتیس کا ہے۔‘‘ گویا اپ نے پہلی تاریخ کا چاند دیکھ کر قسم کھائی اور اگلا چاند دیکھ کر داخل ہوئے، مگر یہ بہت بعید بات ہے کہ آپ نے ناراضی کے باوجود چاند دیکھنے تک انتظار کیا اور پھر قسم کھائی اور پھر اگلا چاند دیکھتے ہی آپ داخل ہوئے۔ کیا جھگڑا عین چاند والے دن ہوا تھا؟ کسی حدیث میں اس کی صراحت نہیں۔ نہ یہ معنی دل کو لگتا ہے جبکہ پہلا معنی بالکل واضح ہے۔ واللہ اعلم
(۱) اختلاف یہ ہے کہ زہری کے بعض شاگردوں نے اس حدیث کو حضرت عائشہؓ کی طرف منسوب کیا ہے اور بعض نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف، تاہم یہ اختلاف ضرر رساں نہیں، حدیث دونوں سے صحیح طور پر ثابت ہے۔ (۲)’’قسم کھالی۔‘‘ اس طرح کی قسم کو شرعی زبان میں ’’ایلائ‘‘ کہتے ہیں۔ خاوند بیوی میں اگر کوئی ناچاقی ہو جائے تو خاوند اپنی بیوی سے وقتی طور پر تعلقات منقطع کر سکتا ہے مگر گھر میں رہنا ضروری ہے تاکہ عورت کوئی غلط قدم نہ اٹھائے۔ یہ کیفیت زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک رہ سکتی ہے۔ اگر قسم اس سے زیادہ کی ہو تو قسم توڑنا فرض ہے اور چار ماہ کے بعد فوراً تعلقات قائم کرنا ضروری ہے ورنہ اسے طلاق دینا پڑے گی۔ وہ دونوں میں سے کوئی بھی کام نہ کرے تو قاضی یا حاکم اپنی طرف سے اسے مصاحبت پر مجبور کرے گا یا طلاق نافذ کر دے گا اور وہ عورت اس سے مستقل طور پر جدا ہو جائے گی۔ اگر مدت کم ہو تو قسم پوری کر سکتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے صرف ایک ماہ کی قسم کھائی تھی، لہٰذا آپ نے قسم پوری کی۔ اس واقعے کی تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔ (۳)’’مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔‘‘ یعنی قمری مہینہ جو احکام اسلامی میں معتبر ہے، تیس دن کا بھی ہوتا ہے اور انتیس کا بھی، لہٰذا انتیس دن کو بھی کامل مہینہ شمار کیا جائے گا۔ ایک مہینے کی قسم شرعاً انتیس دن کے لیے ہوگی۔ یہ اس جملے کا صحیح مفہوم ہے۔ بعض اہل علم نے یوں معنی کیا ہے کہ ’’یہ مہینہ انتیس کا ہے۔‘‘ گویا اپ نے پہلی تاریخ کا چاند دیکھ کر قسم کھائی اور اگلا چاند دیکھ کر داخل ہوئے، مگر یہ بہت بعید بات ہے کہ آپ نے ناراضی کے باوجود چاند دیکھنے تک انتظار کیا اور پھر قسم کھائی اور پھر اگلا چاند دیکھتے ہی آپ داخل ہوئے۔ کیا جھگڑا عین چاند والے دن ہوا تھا؟ کسی حدیث میں اس کی صراحت نہیں۔ نہ یہ معنی دل کو لگتا ہے جبکہ پہلا معنی بالکل واضح ہے۔ واللہ اعلم