سنن النسائي - حدیث 212

ذِكْرُ مَا يُوجِبُ الْغُسْلَ وَمَا لَا يُوجِبُهُ ذِكْرُ الْأَقْرَاءِ صحيح أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ الْمُنْذِرِ بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَبِي حُبَيْشٍ حَدَّثَتْ أَنَّهَا أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَكَتْ إِلَيْهِ الدَّمَ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا ذَلِكَ عِرْقٌ فَانْظُرِي إِذَا أَتَاكِ قُرْؤُكِ فَلَا تُصَلِّ فَإِذَا مَرَّ قُرْؤُكِ فَتَطَهَّرِي ثُمَّ صَلِّي مَا بَيْنَ الْقُرْءِ إِلَى الْقُرْءِ هَذَا الدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ الْأَقْرَاءَ حَيْضٌ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ عُرْوَةَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ مَا ذَكَرَ الْمُنْذِرُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 212

کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟ حیض کا بیان حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور خون کی شکایت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ تو ایک رگ (کا خون) ہے۔ تم خیال رکھنا جب تمھارے حیض کے دن آ جائیں تو نماز نہ پڑھو اور جب گزر جائیں تو نہا دھو کر آئندہ حیض تک نماز پڑھو۔‘‘ یہ حدیث دلیل ہے کہ [قرء] سے مراد حیض ہے۔ امام ابو عبدالرحمٰن (نسائی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ اس حدیث کو حضرت عروہ سے ہشام بن عروہ نے بھی بیان کیا ہے لیکن انھوں نے وہ الفاظ ذکر نہیں کیے جو منذر نے ذکر کیے ہیں۔
تشریح : امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ یہ حدیث عروہ نے براہ راست حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا سے نہیں سنی جیسا کہ منذر کی روایت سے ظاہر ہوتا ہے بلکہ انھوں نے یہ حدیث دراصل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنی ہے جیسا کہ آئندہ حدیث: ۲۱۳ سے سمجھ میں آ رہا ہے۔ گویا منذر کی روایت منقطع ہے، نیز ہمارے فاضل محقق نے منذر کو مجہول الحال قرار دیا ہے، اس لیے مذکورہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، تاہم معناً صحیح ہے کیونکہ اگلی صبح روایت اسی کے ہم معنی ہے، نیز شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، دیکھیے: (صحیح سنن النسائي، للألباني، رقم: ۲۲۱) امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ یہ حدیث عروہ نے براہ راست حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا سے نہیں سنی جیسا کہ منذر کی روایت سے ظاہر ہوتا ہے بلکہ انھوں نے یہ حدیث دراصل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنی ہے جیسا کہ آئندہ حدیث: ۲۱۳ سے سمجھ میں آ رہا ہے۔ گویا منذر کی روایت منقطع ہے، نیز ہمارے فاضل محقق نے منذر کو مجہول الحال قرار دیا ہے، اس لیے مذکورہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، تاہم معناً صحیح ہے کیونکہ اگلی صبح روایت اسی کے ہم معنی ہے، نیز شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، دیکھیے: (صحیح سنن النسائي، للألباني، رقم: ۲۲۱)