سنن النسائي - حدیث 2118

كِتَابُ الصِّيَامِ بَاب قَبُولِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ الْوَاحِدِ عَلَى هِلَالِ شَهْرِ رَمَضَانَ وَذِكْرِ الِاخْتِلَافِ فِيهِ عَلَى سُفْيَانَ فِي حَدِيثِ سِمَاكٍ صحيح أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ شَبِيبٍ أَبُو عُثْمَانَ وَكَانَ شَيْخًا صَالِحًا بِطَرَسُوسَ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ حُسَيْنِ بْنِ الْحَارِثِ الْجَدَلِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ خَطَبَ النَّاسَ فِي الْيَوْمِ الَّذِي يُشَكُّ فِيهِ فَقَالَ أَلَا إِنِّي جَالَسْتُ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَاءَلْتُهُمْ وَإِنَّهُمْ حَدَّثُونِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ وَانْسُكُوا لَهَا فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا ثَلَاثِينَ فَإِنْ شَهِدَ شَاهِدَانِ فَصُومُوا وَأَفْطِرُوا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2118

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل رمضان المبارک کے چاند کے لیے ایک آدمی کی گواہی کے قبول ہونے کا بیان اور سماک کی حدیث میں سفیان کے شاگردوں کے اختلاف کا ذکر حضرت حسین بن حارث جدلی سے روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن زید بن خطاب نے اس دن لوگوں کو خطاب کیا جس دن رمضان المبارک ہونا مشکوک تھا۔ انہوں نے فرمایا: میں رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس بیٹھتا رہا ہوں اور ان سے مسائل بھی پوچھتا رہا ہوں۔ انہوں نے مجھے بیان کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جاند دیکھ کر روزے رکھنا شروع کرو اور چاند دیکھ کر روزے رکھنا بند کرو۔ اور چاند دیکھ کر ہی حج اور قربانی کرو۔ اگر چاند نظر نہ آئے تو (مہینے کے) تیس دن پورے کر لو۔ اور اگر دو شخص چاند دیکھنے کی گواہی دیں تو بھی روزے رکھنا شروع یا بند کر دو۔‘‘
تشریح : (۱) ’’مشکوک دن‘‘ سے مراد شعبان کا تیسواں دن ہے کیونکہ اس کے بارے میں دونوں امکان ہوتے ہیں، شعبان کی تیسویں ہو یا رمضان امبارک کی یکم، خصوصاً جب چاند کا امکان تھا لیکن مطلع ابر آلود تھا، چاند نظر نہ آ سکا۔ (۲) ’’چاند نظر نہ آئے‘‘ بادل، غبار یا دھواں وغیرہ کی وجہ سے۔ (۳) ’’دو شخص گواہی دیں۔‘‘ دو شخص تب ضروری ہیں جب مطلع بالکل صاف ہو کیونکہ ایسی صورت میں زیادہ اشخاص کے دیکھنے کا امکان ہوتا ہے، البتہ اگر مطلع ابر آلود ہو تو ایک شخص کی گواہی بھی کافی ہے جیسا کہ پیچھے حدیث میں بیان ہوا، کیونکہ ایسی صورت میں عموماً نظر آنے کا امکان نہیں ہوتا، ایک آدھ کو نظر آنا بھی غنیمت ہوتا ہے، اس طرح احادیث میں تطبیق ہو جائے گی اور تطبیق ہی بہتر ہوتی ہے، البتہ عید کے لیے دو گواہ ضروری ہیں۔ واللہ ا علم (۱) ’’مشکوک دن‘‘ سے مراد شعبان کا تیسواں دن ہے کیونکہ اس کے بارے میں دونوں امکان ہوتے ہیں، شعبان کی تیسویں ہو یا رمضان امبارک کی یکم، خصوصاً جب چاند کا امکان تھا لیکن مطلع ابر آلود تھا، چاند نظر نہ آ سکا۔ (۲) ’’چاند نظر نہ آئے‘‘ بادل، غبار یا دھواں وغیرہ کی وجہ سے۔ (۳) ’’دو شخص گواہی دیں۔‘‘ دو شخص تب ضروری ہیں جب مطلع بالکل صاف ہو کیونکہ ایسی صورت میں زیادہ اشخاص کے دیکھنے کا امکان ہوتا ہے، البتہ اگر مطلع ابر آلود ہو تو ایک شخص کی گواہی بھی کافی ہے جیسا کہ پیچھے حدیث میں بیان ہوا، کیونکہ ایسی صورت میں عموماً نظر آنے کا امکان نہیں ہوتا، ایک آدھ کو نظر آنا بھی غنیمت ہوتا ہے، اس طرح احادیث میں تطبیق ہو جائے گی اور تطبیق ہی بہتر ہوتی ہے، البتہ عید کے لیے دو گواہ ضروری ہیں۔ واللہ ا علم