كِتَابُ الصِّيَامِ بَاب قَبُولِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ الْوَاحِدِ عَلَى هِلَالِ شَهْرِ رَمَضَانَ وَذِكْرِ الِاخْتِلَافِ فِيهِ عَلَى سُفْيَانَ فِي حَدِيثِ سِمَاكٍ ضعيف أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رِزْمَةَ قَالَ أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى عَنْ سُفْيَانَ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَأَيْتُ الْهِلَالَ فَقَالَ أَتَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ قَالَ نَعَمْ فَنَادَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ صُومُوا
کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل
رمضان المبارک کے چاند کے لیے ایک آدمی کی گواہی کے قبول ہونے کا بیان اور سماک کی حدیث میں سفیان کے شاگردوں کے اختلاف کا ذکر
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نبیﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں نے چاند دیکھا ہے۔ فرمایا: ’’تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد(ﷺ) اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں۔ تو نبیﷺ نے اعلان کر دیا: ’’روزہ رکھو۔‘‘
تشریح :
(۱) معلوم ہوتا ہے چاند کا دیکھنا اور خبر مل جانا برابر ہیں۔ بشرطیکہ مطلع ایک ہو جیسا کہ پچھلی حدیث کے فوائد میں بیان ہوا۔ (۲) ماہ رمضان المبارک کے چاند کے بارے میں جمہور اہل علم کا قول یہی ہے کہ ایک مسلمان کی گواہی کافی ہے جیسا کہ حدیث میں واضح ہے اور یہی صحیح ہے، البتہ بعض فقہاء گواہی کے مدنظر دو مسلمانوں کا ہونا ضروری سمجھتے ہیں، لیکن عید کے بارے میں ائمہ اربعہ میں اتفاق ہے کہ دو مسلمانوں کی گواہی ضروری ہے کیونکہ عید میں لوگوں کا اپنا مفاد بھی ہوتا ہے، لہٰذا حقوق العباد کی طرح اس میں بھی دو گواہ ہونے چاہئیں جبکہ روزے میں لوگوں کا ذاتی مفاد نہیں، لہٰذا وہاں ایک مسلمان کی خبر کافی ہے کیونکہ یہ خبر ہے شہادت (گواہی) نہیں اورخبر کے لیے ایک معبر شخص کافی ہے۔ (۳) ’’تو گواہی دیتا ہے؟‘‘ گویا مسلمان ہونا ضروری ہے، نیز وہ قابل اعتبار بھی ہو، یعنی جھوٹ بولنے میں معروف نہ ہو اور فرائض شرع کا پابند ہو، دین کو مذاق نہ بناتا ہو۔ (۴) یہ اور آئندہ تینوں روایات ضعیف ہیں لیکن ابوداؤد (حدیث: ۲۳۴۲) میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اسی مفہوم کی صحیح حدیث موجود ہے، اس لیے حدیث میں بیان کردہ مسئلہ اور دیگر مستنبط مسائل درست ہیں۔ واللہ اعلم
(۱) معلوم ہوتا ہے چاند کا دیکھنا اور خبر مل جانا برابر ہیں۔ بشرطیکہ مطلع ایک ہو جیسا کہ پچھلی حدیث کے فوائد میں بیان ہوا۔ (۲) ماہ رمضان المبارک کے چاند کے بارے میں جمہور اہل علم کا قول یہی ہے کہ ایک مسلمان کی گواہی کافی ہے جیسا کہ حدیث میں واضح ہے اور یہی صحیح ہے، البتہ بعض فقہاء گواہی کے مدنظر دو مسلمانوں کا ہونا ضروری سمجھتے ہیں، لیکن عید کے بارے میں ائمہ اربعہ میں اتفاق ہے کہ دو مسلمانوں کی گواہی ضروری ہے کیونکہ عید میں لوگوں کا اپنا مفاد بھی ہوتا ہے، لہٰذا حقوق العباد کی طرح اس میں بھی دو گواہ ہونے چاہئیں جبکہ روزے میں لوگوں کا ذاتی مفاد نہیں، لہٰذا وہاں ایک مسلمان کی خبر کافی ہے کیونکہ یہ خبر ہے شہادت (گواہی) نہیں اورخبر کے لیے ایک معبر شخص کافی ہے۔ (۳) ’’تو گواہی دیتا ہے؟‘‘ گویا مسلمان ہونا ضروری ہے، نیز وہ قابل اعتبار بھی ہو، یعنی جھوٹ بولنے میں معروف نہ ہو اور فرائض شرع کا پابند ہو، دین کو مذاق نہ بناتا ہو۔ (۴) یہ اور آئندہ تینوں روایات ضعیف ہیں لیکن ابوداؤد (حدیث: ۲۳۴۲) میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اسی مفہوم کی صحیح حدیث موجود ہے، اس لیے حدیث میں بیان کردہ مسئلہ اور دیگر مستنبط مسائل درست ہیں۔ واللہ اعلم