سنن النسائي - حدیث 2113

كِتَابُ الصِّيَامِ اخْتِلَافُ أَهْلِ الْآفَاقِ فِي الرُّؤْيَةِ صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ قَالَ أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ قَالَ فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا وَاسْتَهَلَّ عَلَيَّ هِلَالُ رَمَضَانَ وَأَنَا بِالشَّامِ فَرَأَيْتُ الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ فَسَأَلَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ فَقَالَ مَتَى رَأَيْتُمْ فَقُلْتُ رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ قَالَ أَنْتَ رَأَيْتَهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ قُلْتُ نَعَمْ وَرَآهُ النَّاسُ فَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ قَالَ لَكِنْ رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ يَوْمًا أَوْ نَرَاهُ فَقُلْتُ أَوَ لَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَأَصْحَابِهِ قَالَ لَا هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2113

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل مختلف علاقوں کے لوگوں کا چاند دیکھنے میں اختلاف حضرت کریب بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت ام فضلؓ نے (کسی کام کے لیے) علاقہ شام میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ (امیرالمومنین) کے پاس بھیجا۔ میں شام گیا اور ان کا کام پورا کیا۔ میں ابھی شام ہی میں تھا کہ رمضان المبارک کا چاند طلوع ہوگیا۔ میں نے بذات خود جمعے کی رات چاند دیکھا، پھر میں ماہ رمضان المبارک کے آخر میں مدینہ منورہ واپس آیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے چاند کا ذکر کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ تم نے (رمضان المبارک کا) چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہم نے جمعۃ المبارک کی رات دیکھا تھا۔ وہ فرمانے لگے: تو نے خود جمعے کی رات دیکھا تھا؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا تھا، پھر لوگوں نے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے روزہ رکھا۔ آپ نے فرمایا ہم نے تو ہفتے کی رات دیکھا تھا۔ ہم تو روزے رکھتے رہیں گے حتیٰ کہ تیس پورے ہو جائیں یا چاند دیکھ لیں۔ میں نے کہا: کیا آپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے چاند دیکھ لینے کو کافی نہیں سمجھتے؟ انہوں نے کہا نہیں، ہمیں رسول اللہﷺ نے یہی حکم دیا ہے۔
تشریح : (۱) ’’یہی حکم دیا ہے‘‘ کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر شخص چاند دیکھے بلکہ کوئی ایک معتبر آدمی بھی چاند دیکھ لے یا کسی اور جگہ چاند نظر آنے کی خبر پہنچ جائے تو اس علاقے کے تمام لوگ روزہ رکھیں گے یا عید کریں گے اور نیا مہینہ شروع ہو جائے گا، البتہ یہ تحقیق ضروری ہے کہ دونوں جگہوں میں اتنا فاصلہ نہ ہو جتنے فاصلے سے چاند دیکھنے میں ایک یا دو دن کا فرق پڑ سکتا ہے۔ جس جگہ چاند نظر آیا ہو، اس کے اردگرد جتنے علاقے میں وہ چاند نظر آ سکتا ہو، اتنے علاقے کے لیے وہ رؤیت معتبر ہوگی۔ اس سلسلے میں علمائے رصد سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ آج کل ہر اسلامی ملک اتنا چھوٹا ہے کہ اس ملک میں کسی جگہ بھی چاند نظر آجائے تو وہ پورے ملک میں نظر آسکتا ہے، لہٰذا ایک ملک میں کسی جگہ چاند نظر آنے پر سارے ملک میں روزہ یا عید ہو سکتے ہیں، البتہ مختلف ممالک میں چاند مختلف ہو سکتا ہے، مثلاً: سعودی عرب اور پاکستان ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر ہیں۔ اس سلسلے میں علمائے ہیئت ورصد ہی صحیح فیصلہ کر سکتے ہیں، لہٰذا رؤیت ہلال کمیٹی میں ان کی شرکت انتہائی ضرو ری ہے۔ اس سلسلے میں چند اصول مسلمہ ہیں: * جب ایک شہر میں چاند نظر آئے تو اس سے ملتے جلتے طول بلد پر واقع تمام شہروں میں چاند ہوگا، خواہ ان کا درمیان فاصلہ ہزاروں میل ہی میں ہو۔ *کسی شہر میں چاند نظر آئے تو اس سے مغرب میں واقع تمام علاقوں میں خواہ مخواہ چاند نظر آجائے گا، دیکھنے کی ضرورت نہیں، خواہ فاصلہ ہزاروں میل ہو، البتہ اس کے الٹ ضروری نہی، یعنی مغرب کا چاند مشرق کے لیے معتبر نہیں، الگ دیکھنا ہوگا۔ *بالائی علاقے میں چاند نظر آئے تو نشیبی علاقے میں چاند کا نظر آنا ضروری نہیں، البتہ اس کے الٹ ضروری ہے، یعنی نشیبی علاقے میں چاند نظر آیا تو بالائی علاقے میں لازماً چاند ہوگا، اور یہ اصول بدیہی ہیں، ان میں اختلاف ممکن نہیں۔ (۲) مدینہ منورہ اور دمشق کے درمیان ویسے تو کافی فاصلہ ہے مگر طول بلد کے لحاظ سے صرف چھ درجے کا فرق ہے۔ گویا طلوع اور غروب میں ۲۴ منٹ کا فرق ہے، اتنے فرق سے چاند کی رؤیت میں فرق نہیں پڑتا۔ دونوں جگہ ایک ہی دن چاند ہونا چاہیے، مگر اس دور میں پیغام رسانی کے تیز ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے اتنے فاصلے سے بروقت خبر پہنچنا ناممکن تھا، لہٰذا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ کے لیے شام (یعنی دمشق جو اس وقت دارالخلافہ تھا) کی رؤیت کو کافی نہ سمجھا۔ (۱) ’’یہی حکم دیا ہے‘‘ کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر شخص چاند دیکھے بلکہ کوئی ایک معتبر آدمی بھی چاند دیکھ لے یا کسی اور جگہ چاند نظر آنے کی خبر پہنچ جائے تو اس علاقے کے تمام لوگ روزہ رکھیں گے یا عید کریں گے اور نیا مہینہ شروع ہو جائے گا، البتہ یہ تحقیق ضروری ہے کہ دونوں جگہوں میں اتنا فاصلہ نہ ہو جتنے فاصلے سے چاند دیکھنے میں ایک یا دو دن کا فرق پڑ سکتا ہے۔ جس جگہ چاند نظر آیا ہو، اس کے اردگرد جتنے علاقے میں وہ چاند نظر آ سکتا ہو، اتنے علاقے کے لیے وہ رؤیت معتبر ہوگی۔ اس سلسلے میں علمائے رصد سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ آج کل ہر اسلامی ملک اتنا چھوٹا ہے کہ اس ملک میں کسی جگہ بھی چاند نظر آجائے تو وہ پورے ملک میں نظر آسکتا ہے، لہٰذا ایک ملک میں کسی جگہ چاند نظر آنے پر سارے ملک میں روزہ یا عید ہو سکتے ہیں، البتہ مختلف ممالک میں چاند مختلف ہو سکتا ہے، مثلاً: سعودی عرب اور پاکستان ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر ہیں۔ اس سلسلے میں علمائے ہیئت ورصد ہی صحیح فیصلہ کر سکتے ہیں، لہٰذا رؤیت ہلال کمیٹی میں ان کی شرکت انتہائی ضرو ری ہے۔ اس سلسلے میں چند اصول مسلمہ ہیں: * جب ایک شہر میں چاند نظر آئے تو اس سے ملتے جلتے طول بلد پر واقع تمام شہروں میں چاند ہوگا، خواہ ان کا درمیان فاصلہ ہزاروں میل ہی میں ہو۔ *کسی شہر میں چاند نظر آئے تو اس سے مغرب میں واقع تمام علاقوں میں خواہ مخواہ چاند نظر آجائے گا، دیکھنے کی ضرورت نہیں، خواہ فاصلہ ہزاروں میل ہو، البتہ اس کے الٹ ضروری نہی، یعنی مغرب کا چاند مشرق کے لیے معتبر نہیں، الگ دیکھنا ہوگا۔ *بالائی علاقے میں چاند نظر آئے تو نشیبی علاقے میں چاند کا نظر آنا ضروری نہیں، البتہ اس کے الٹ ضروری ہے، یعنی نشیبی علاقے میں چاند نظر آیا تو بالائی علاقے میں لازماً چاند ہوگا، اور یہ اصول بدیہی ہیں، ان میں اختلاف ممکن نہیں۔ (۲) مدینہ منورہ اور دمشق کے درمیان ویسے تو کافی فاصلہ ہے مگر طول بلد کے لحاظ سے صرف چھ درجے کا فرق ہے۔ گویا طلوع اور غروب میں ۲۴ منٹ کا فرق ہے، اتنے فرق سے چاند کی رؤیت میں فرق نہیں پڑتا۔ دونوں جگہ ایک ہی دن چاند ہونا چاہیے، مگر اس دور میں پیغام رسانی کے تیز ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے اتنے فاصلے سے بروقت خبر پہنچنا ناممکن تھا، لہٰذا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ کے لیے شام (یعنی دمشق جو اس وقت دارالخلافہ تھا) کی رؤیت کو کافی نہ سمجھا۔