سنن النسائي - حدیث 2111

كِتَابُ الصِّيَامِ الرُّخْصَةُ فِي أَنْ يُقَالَ لِشَهْرِ رَمَضَانَ رَمَضَانُ ضعيف أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ أَنْبَأَنَا الْمُهَلَّبُ بْنُ أَبِي حَبِيبَةَ ح وَأَنْبَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ الْمُهَلَّبِ بْنِ أَبِي حَبِيبَةَ قَالَ أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ صُمْتُ رَمَضَانَ وَلَا قُمْتُهُ كُلَّهُ وَلَا أَدْرِي كَرِهَ التَّزْكِيَةَ أَوْ قَالَ لَا بُدَّ مِنْ غَفْلَةٍ وَرَقْدَةٍ اللَّفْظُ لِعُبَيْدِ اللَّهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2111

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل ماہ رمضان کو(صرف) رمضان کہا جا سکتا ہے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبیﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ میں نے پورے رمضان کے روزے رکھے یا میں نے تمام راتوں کا قیام کیا۔‘‘ (راوی کہتا ہے) میں نہیں جانتا کہ آپ نے اپنے منہ تعریف کو برا سمجھایا اس لیے کہ انسان سے غفلت اور نیند کا ہونا جانا لازمی امر ہے۔ یہ الفاظ عبیداللہ (بن سعید) کے ہیں۔
تشریح : (۱) یہ روایت ضعیف ہے۔ ایک دوسری ضعیف روایت میں آتا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’رمضان مت کہو کیونکہ رمضان اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، ہاں: رمضان کا مہینہ کہہ سکتے ہو۔‘‘ دیکھیے (ذخیرۃ العقبی: ۲۰/ ۲۶۹، ۲۷۰) (۲) معلوم ہوا اس قسم کے الفاظ بولنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ حدیث: ۲۱۰۰، ۲۱۰۱، ۲۱۰۲ اور مابعد کی صحیح حدیث ہے کہ نیکی کی نسبت اپنی طرف کرنا مناسب نہیں بلکہ نسبت اللہ تعالیٰ کی توفیق کی طرف کرے، نیز بلا وجہ نیکی کا اعلان نہیں کرنا چاہیے۔ قبولیت کے بغیر نیکی کی کوئی حیثیت نہیں اور قبولیت کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں، لہٰذا تزکیہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہو سکتا ہے۔ (۱) یہ روایت ضعیف ہے۔ ایک دوسری ضعیف روایت میں آتا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’رمضان مت کہو کیونکہ رمضان اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، ہاں: رمضان کا مہینہ کہہ سکتے ہو۔‘‘ دیکھیے (ذخیرۃ العقبی: ۲۰/ ۲۶۹، ۲۷۰) (۲) معلوم ہوا اس قسم کے الفاظ بولنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ حدیث: ۲۱۰۰، ۲۱۰۱، ۲۱۰۲ اور مابعد کی صحیح حدیث ہے کہ نیکی کی نسبت اپنی طرف کرنا مناسب نہیں بلکہ نسبت اللہ تعالیٰ کی توفیق کی طرف کرے، نیز بلا وجہ نیکی کا اعلان نہیں کرنا چاہیے۔ قبولیت کے بغیر نیکی کی کوئی حیثیت نہیں اور قبولیت کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں، لہٰذا تزکیہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہو سکتا ہے۔