سنن النسائي - حدیث 2109

كِتَابُ الصِّيَامِ ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى مَعْمَرٍ فِيهِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ عَرْفَجَةَ قَالَ عُدْنَا عُتْبَةَ بْنَ فَرْقَدٍ فَتَذَاكَرْنَا شَهْرَ رَمَضَانَ فَقَالَ مَا تَذْكُرُونَ قُلْنَا شَهْرَ رَمَضَانَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ تُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَتُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ النَّارِ وَتُغَلُّ فِيهِ الشَّيَاطِينُ وَيُنَادِي مُنَادٍ كُلَّ لَيْلَةٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ هَلُمَّ وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ هَذَا خَطَأٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2109

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل اس روایت میں معمر کے شاگردوں کے اختلاف کا بیان حضرت عرفجہ سے منقول ہے کہ ہم حضرت عتبہ بن فرقد رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لیے گئے۔ وہاں ہم رمضان المبارک کا تذکرہ کرنے لگے۔ انہوں نے کہا: تم کیا ذکر کر رہے ہو؟ ہم نے عرض کیا: ماہ رمضان کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے: ’’اس ماہ مبارک میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور آگ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں اور ہر رات ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے: اے نیکی کے طلب گار! ادھر آ۔ اور اے گناہ کے طلب گار! رک جا۔‘‘ ابوعبدالرحمن (امام نسائی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: یہ حدیث غلط ہے۔
تشریح : (۱) امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ مذکورہ روایت کی سند میں خطا ہے۔ سفیان بن عیینہ کا اسے عطاء بن سائب، عن عرفجۃ، عن عتبۃ بن فرقد کے طریق سے بیان کرنا درست نہیں کیونکہ اس طرح یہ روایت عتبہ بن فرقد کی سند سے شمار ہوگی، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وہ اس طرح کی یہ روایت عرفجۃ عن عتبۃ کے بجائے عرفجۃ عَنْ رَجُلٍ مِنْ اصْحَابِ النَّبِیِّ چاہیے کہ عرفجہ ایک صحابی رسول سے روایت کرتا ہے۔ (۲) ’’اعلان کرتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی اس کائنات کا انتظام اللہ تعالیٰ کے حسب ہدایت ہوتا ہے اور فرشتے اس پر عمل درآمد کرتے ہیں، لہٰذا ہمارے سننے، نہ سننے سے اس اعلان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب سچے نبیﷺ نے بتلا دیا تو ہر مومن کو یہ اعلان اپنے دل کے کانوں سے سننا چاہیے۔ (۱) امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ مذکورہ روایت کی سند میں خطا ہے۔ سفیان بن عیینہ کا اسے عطاء بن سائب، عن عرفجۃ، عن عتبۃ بن فرقد کے طریق سے بیان کرنا درست نہیں کیونکہ اس طرح یہ روایت عتبہ بن فرقد کی سند سے شمار ہوگی، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وہ اس طرح کی یہ روایت عرفجۃ عن عتبۃ کے بجائے عرفجۃ عَنْ رَجُلٍ مِنْ اصْحَابِ النَّبِیِّ چاہیے کہ عرفجہ ایک صحابی رسول سے روایت کرتا ہے۔ (۲) ’’اعلان کرتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی اس کائنات کا انتظام اللہ تعالیٰ کے حسب ہدایت ہوتا ہے اور فرشتے اس پر عمل درآمد کرتے ہیں، لہٰذا ہمارے سننے، نہ سننے سے اس اعلان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب سچے نبیﷺ نے بتلا دیا تو ہر مومن کو یہ اعلان اپنے دل کے کانوں سے سننا چاہیے۔