سنن النسائي - حدیث 2108

كِتَابُ الصِّيَامِ ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى مَعْمَرٍ فِيهِ صحيح أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاكُمْ رَمَضَانُ شَهْرٌ مُبَارَكٌ فَرَضَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ تُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَتُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَحِيمِ وَتُغَلُّ فِيهِ مَرَدَةُ الشَّيَاطِينِ لِلَّهِ فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2108

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل اس روایت میں معمر کے شاگردوں کے اختلاف کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تمہارے پاس ایک بابرکت مہینہ رمضان آچکا ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس مہینے کے روزے فرض قرار دیے ہیں۔ اس میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین کو طوق پہنا دیے جاتے ہیں۔ اس میں ایک رات ہے جو ہزار ماہ سے بہتر ہے۔ جو اس رات کی نیکی (عبادت) سے محروم رہا، وہ حقیقتاً محروم شخص ہے۔
تشریح : (۱) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ یہ روایت دیگر شواہد کی روشنی میں اصولی طور پر صحیح ہے، نیز دیگر محققین نے بھی شواہد کی بنا پر اسے صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (صحیح الترغیب للالبانی، رقم الحدیث: ۹۹۹، والموسوعۃ الحدیثیہ مسند الامام احمد: ۲/ ۵۹) (۲) ’’آسمان کے دروازے‘‘ ماہ رمضان کے استقبال کے لیے، یا اہل ایمان کے اعمال صالحہ کی وصولی کے لیے، یا اس سے اعمال صالحہ کی کثرت مراد ہے کہ سب دروازے کھولنے پڑتے ہیں کیونکہ کمزور سے کمزور ایمان والا شخص بھی اس میں کچھ نہ کچھ اعمال صالحہ کرتا ہے۔ (۳) ’’جہنم یا آگ کے دروازے‘‘ رمضان کے استقبال کے لیے احتراماً، جیسے کسی معزز شخصیت کے آنے پر ناپسندیدہ چیزوں کو ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ یا مراد ہے کہ عذاب قبر موقوف ہو جاتا ہے لیکن یہ سب کچھ مومنین کے لیے ہے، کفار کے لیے سب کچھ کھلا رہتا ہے۔ (۴) ’’سرکش جن‘‘ یعنی بڑے بڑے شطان جکڑ دیے جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے شتونگڑے کھلے رہتے ہیں، تبھی کچھ نہ کچھ گناہ ہوتے رہتے ہیں۔ ویسے سب گناہ شیاطین ہی کی وجہ سے نہیں ہوتے، انسان کا اپنا نفس بھی تو شیطان بن جاتا ہے، لہٰذا باوجود شیاطین کے جکڑے جانے کے گناہوں کا عادی نفس گناہ میں جاری رہتا ہے۔ (۵) ’’ہزار مہینے سے بہتر ہے۔‘‘ یعنی اس رات میں عبادت عام دنوں کے ہزار مہینے کی عبادت سے بہتر ہے اور یہ مومنین کے لیے اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت ہے۔ اور یہ رات ہمیشہ کے لیے ایک مقررہ رات نہیں بلکہ یہ آخری عشرے کی طاقت راتوں میں بدل بدل کر آتی ہے تاکہ لوگوں میں عبادت کا ذوق بڑھے اور وہ متعدد راتوں میں قیام کریں۔ (۱) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ یہ روایت دیگر شواہد کی روشنی میں اصولی طور پر صحیح ہے، نیز دیگر محققین نے بھی شواہد کی بنا پر اسے صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (صحیح الترغیب للالبانی، رقم الحدیث: ۹۹۹، والموسوعۃ الحدیثیہ مسند الامام احمد: ۲/ ۵۹) (۲) ’’آسمان کے دروازے‘‘ ماہ رمضان کے استقبال کے لیے، یا اہل ایمان کے اعمال صالحہ کی وصولی کے لیے، یا اس سے اعمال صالحہ کی کثرت مراد ہے کہ سب دروازے کھولنے پڑتے ہیں کیونکہ کمزور سے کمزور ایمان والا شخص بھی اس میں کچھ نہ کچھ اعمال صالحہ کرتا ہے۔ (۳) ’’جہنم یا آگ کے دروازے‘‘ رمضان کے استقبال کے لیے احتراماً، جیسے کسی معزز شخصیت کے آنے پر ناپسندیدہ چیزوں کو ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ یا مراد ہے کہ عذاب قبر موقوف ہو جاتا ہے لیکن یہ سب کچھ مومنین کے لیے ہے، کفار کے لیے سب کچھ کھلا رہتا ہے۔ (۴) ’’سرکش جن‘‘ یعنی بڑے بڑے شطان جکڑ دیے جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے شتونگڑے کھلے رہتے ہیں، تبھی کچھ نہ کچھ گناہ ہوتے رہتے ہیں۔ ویسے سب گناہ شیاطین ہی کی وجہ سے نہیں ہوتے، انسان کا اپنا نفس بھی تو شیطان بن جاتا ہے، لہٰذا باوجود شیاطین کے جکڑے جانے کے گناہوں کا عادی نفس گناہ میں جاری رہتا ہے۔ (۵) ’’ہزار مہینے سے بہتر ہے۔‘‘ یعنی اس رات میں عبادت عام دنوں کے ہزار مہینے کی عبادت سے بہتر ہے اور یہ مومنین کے لیے اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت ہے۔ اور یہ رات ہمیشہ کے لیے ایک مقررہ رات نہیں بلکہ یہ آخری عشرے کی طاقت راتوں میں بدل بدل کر آتی ہے تاکہ لوگوں میں عبادت کا ذوق بڑھے اور وہ متعدد راتوں میں قیام کریں۔