سنن النسائي - حدیث 2095

كِتَابُ الصِّيَامِ بَاب وُجُوبِ الصِّيَامِ صحيح أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ مِنْ كِتَابِهِ قَالَ حَدَّثَنَا عَمِّي قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ عَجْلَانَ وَغَيْرُهُ مِنْ إِخْوَانِنَا عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُلُوسٌ فِي الْمَسْجِدِ دَخَلَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ فَأَنَاخَهُ فِي الْمَسْجِدِ ثُمَّ عَقَلَهُ ثُمَّ قَالَ أَيُّكُمْ مُحَمَّدٌ وَهُوَ مُتَّكِئٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ فَقُلْنَا لَهُ هَذَا الرَّجُلُ الْأَبْيَضُ الْمُتَّكِئُ فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ يَا ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَجَبْتُكَ قَالَ الرَّجُلُ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي سَائِلُكَ فَمُشَدِّدٌ عَلَيْكَ فِي الْمَسْأَلَةِ قَالَ سَلْ عَمَّا بَدَا لَكَ قَالَ أَنْشُدُكَ بِرَبِّكَ وَرَبِّ مَنْ قَبْلَكَ آللَّهُ أَرْسَلَكَ إِلَى النَّاسِ كُلِّهِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ فَأَنْشُدُكَ اللَّهَ آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ تَصُومَ هَذَا الشَّهْرَ مِنْ السَّنَةِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ فَأَنْشُدُكَ اللَّهَ آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ تَأْخُذَ هَذِهِ الصَّدَقَةَ مِنْ أَغْنِيَائِنَا فَتَقْسِمَهَا عَلَى فُقَرَائِنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ نَعَمْ فَقَالَ الرَّجُلُ إِنِّي آمَنْتُ بِمَا جِئْتَ بِهِ وَأَنَا رَسُولُ مَنْ وَرَائِي مِنْ قَوْمِي وَأَنَا ضِمَامُ بْنُ ثَعْلَبَةَ أَخُو بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ خَالَفَهُ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2095

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل روزے کی فرضیت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک دفعہ رسول اللہﷺ کے پاس مسجد میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی اونٹ پر سوار ہو کر آیا۔ اس نے اسے مسجد میں بٹھا دیا، پھر اس کا گھٹنا باندھا، پھر کہنے لگا: تم میں سے محمد(ﷺ) کون ہے؟ اس وقت آپ لوگوں کے درمیان ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ تو ہم نے اس سے کہا: یہ روشن چہرے والے شخص جو تیک لگا کر بیٹھے ہیں۔ وہ آپ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا: اے ابن عبدالمطلب! آپ نے فرمایا: ’’میں نے تجھے جواب دیا ہے۔‘‘ (میری تیری بات سن رہا ہوں۔) اس نے کہا: اے محمد(ﷺ)! میں آپ سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں اور وہ سوالات میں سخت الفاظ میں کروں گا۔ آپ نے فرمایا: ’’جو جی چاہے پوچھ۔‘‘ اس نے کہا: میں آپ کو آپ کے اور آپ سے پہلے لوگوں کے رب کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے رسول بنایا ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! ہاں۔‘‘ اس نے کہا: میں آپ سے اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ سال کے اس مہینے کے روزے رکھیں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! ہاں۔‘‘ اس نے کہا: میں آپ سے اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ ہمارے مال دار لوگوں سے زکاۃ لے کر ہمارے غریب لوگوں میں بانٹ دیں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! ہاں۔‘‘ وہ آدمی کہنے لگا: میں ان احکام پر ایمان لاتا ہوں جو آپ لائے ہیں۔ اور میں اپنی قوم کا قاصد ونمائندہ ہوں۔ اور میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے۔ میں قبیلہ سعد بن بکر سے تعلق رکھتا ہوں۔ عبیداللہ بن عمر نے لیث بن سعد کی مخالفت کی ہے۔
تشریح : یہ مخالفت بھی سند میں ہے۔ اس میں عبیداللہ بن عمر لیث بن سعد کی مخالفت یوں کرتے ہیں کہ لیث اسے بواسطہ سعید المقبری شریک بن عبداللہ سے اور وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، یہی روایت راجح ہے، ابوحاتم اور امام دارقطنی نے اسے ہی ترجیح دی ہے۔ جبکہ عبیداللہ بن عمر نے سعید المقبری عن ابی ہریرۃ کی سند سے روایت کیا ہے۔ بہرکیف اس اختلاف سے متن پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ صحیحین وغیرہ میں یہ روایت اسی طرح آتی ہے۔ دیکھیے (ذخیرۃ العقبیٰ: ۲۰ ۲۳۵) یہ مخالفت بھی سند میں ہے۔ اس میں عبیداللہ بن عمر لیث بن سعد کی مخالفت یوں کرتے ہیں کہ لیث اسے بواسطہ سعید المقبری شریک بن عبداللہ سے اور وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، یہی روایت راجح ہے، ابوحاتم اور امام دارقطنی نے اسے ہی ترجیح دی ہے۔ جبکہ عبیداللہ بن عمر نے سعید المقبری عن ابی ہریرۃ کی سند سے روایت کیا ہے۔ بہرکیف اس اختلاف سے متن پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ صحیحین وغیرہ میں یہ روایت اسی طرح آتی ہے۔ دیکھیے (ذخیرۃ العقبیٰ: ۲۰ ۲۳۵)