سنن النسائي - حدیث 2094

كِتَابُ الصِّيَامِ بَاب وُجُوبِ الصِّيَامِ صحيح أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ عَنْ اللَّيْثِ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ شَرِيكِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ بَيْنَا نَحْنُ جُلُوسٌ فِي الْمَسْجِدِ جَاءَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ فَأَنَاخَهُ فِي الْمَسْجِدِ ثُمَّ عَقَلَهُ فَقَالَ لَهُمْ أَيُّكُمْ مُحَمَّدٌ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ قُلْنَا لَهُ هَذَا الرَّجُلُ الْأَبْيَضُ الْمُتَّكِئُ فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ يَا ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَجَبْتُكَ فَقَالَ الرَّجُلُ إِنِّي سَائِلُكَ يَا مُحَمَّدُ فَمُشَدِّدٌ عَلَيْكَ فِي الْمَسْأَلَةِ فَلَا تَجِدَنَّ فِي نَفْسِكَ قَالَ سَلْ مَا بَدَا لَكَ فَقَالَ الرَّجُلُ نَشَدْتُكَ بِرَبِّكَ وَرَبِّ مَنْ قَبْلَكَ آللَّهُ أَرْسَلَكَ إِلَى النَّاسِ كُلِّهِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ فَأَنْشُدُكَ اللَّهَ آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ تُصَلِّيَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ فَأَنْشُدُكَ اللَّهَ آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ تَصُومَ هَذَا الشَّهْرَ مِنْ السَّنَةِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ فَأَنْشُدُكَ اللَّهَ آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ تَأْخُذَ هَذِهِ الصَّدَقَةَ مِنْ أَغْنِيَائِنَا فَتَقْسِمَهَا عَلَى فُقَرَائِنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ نَعَمْ فَقَالَ الرَّجُلُ آمَنْتُ بِمَا جِئْتَ بِهِ وَأَنَا رَسُولُ مَنْ وَرَائِي مِنْ قَوْمِي وَأَنَا ضِمَامُ بْنُ ثَعْلَبَةَ أَخُو بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ خَالَفَهُ يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2094

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل روزے کی فرضیت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم مسجد میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی اونٹ پر سوار ہو کر آیا۔ اس نے اونٹ کو مسجد میں بٹھا دیا، پھر اس کا گھٹنا باندھ دیا اور کہنے لگا: تم میں سے محمد(ﷺ) کون ہیں؟ رسول اللہﷺ لوگوں کے درمیان بیٹھے تھے۔ ہم نے کہا: یہ سفید چہرے والے شخص جو ٹیک لگا کر بیٹھے ہیں۔ تو وہ شخص (آپ سے مخاطب ہو کر) کہنے لگا: اے ابن عبدالمطلب! رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’بات کر میں تجھے جواب دوں گا۔‘‘ (یعنی میں تیری باتیں سن رہا ہوں۔) اس آدمی نے کہا: اے محمد! میں آپ سے کچھ باتیں پوچھنے لگا ہوں اور میں سخت الفاظ میں پوچھوں گا تو آپ ناراضی محسوس نہ فرمائیے گا۔ آپ نے فرمایا: ’’جو دل چاہے پوچھ۔‘‘ اس نے کہا: میں آپ سے آپ کے اور پہلے تمام لوگوں کے رب کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف رسول بنایا ہے؟ رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! ہاں۔‘‘ اس نے کہا: میں آپ سے اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ ہم دن، رات میں پانچ نمازیں پڑھا کریں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! ہاں۔‘‘ اس نے کہا: تو میں آپ کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو سال میں سے اس مہینے (رمضان المبارک) کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے؟ فرمایا: ’’اللہ کی قسم! ہاں۔‘‘ اس نے کہا: میں آپ سے اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ ہمارے مال دار لوگوں سے زکاۃ لے کر ہمارے غریب لوگوں میں بانٹ دیں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! ہاں۔‘‘ اس آدمی نے کاہ: میں ان تمام چیزوں پر ایمان لاتا ہوں جو آپ لائے ہیں اور میں اپنی قوم کی طرف سے قاصد ونمائندہ ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے اور میں قبیلہ سعد بن بکر سے تعلق رکھتا ہوں۔‘‘ یعقوب بن ابراہیم نے عیسیٰ بن حماد کی مخالفت کی ہے۔
تشریح : (۱) یہ دونوں حضرت لیث کے شاگرد ہیں۔ یعقوب بن ابراہیم نے حضرت لیث اور سعید کے درمیان ابن عجلان وغیرہ کا واسطہ ذکر کیا ہے جبکہ عیسیٰ بن حماد نے کوئی ایسا واسطہ ذکر نہیں کیا۔ اور یہی روایت درست ہے۔ واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ بہت سمجھ دار شخص تھے کہ آپ کے پاس حاضری اور اظہار ایمان میں جلد بازی نہیں کی۔ تسلی سے اونٹ کو بٹھایا، گھٹنا باندھا، پوری تحقیق و تفتیش کی اور اس میں کسی قسم کی رعایت نہیں کی۔ جب یقین ہوگیا تو پھر اپنے ایمان کا اعلان کیا اور پھر اپنا تعارف کروایا۔ یہ اپنی قوم کے سردار تھے… (۲) ’’ابن عبدالمطلب‘‘ عرب میں اسی نسبت سے مشہور تھے کیونکہ آپ کے دادا عبدالمطلب مشہور شخصیت تھے جبکہ آپ کے والد شہرت یاب ہونے سے پہلے اور آپ کی پیدائش سے بھی پہلے فوت ہو چکے تھے۔ اس وقت وہ بالکل نوجوان تھے، لہٰذا وہ زیادہ معروف نہ تھے، نیز آپ کی ابتدائی پرورش بھی آپ کے دادا ہی نے کی تھی۔ خود رسول اللہﷺ نے بھی غزوئہ حنین میں یوں ہی کہا تھا: [اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ] (صحیح البخاری، الجہاد والسیر، حدیث: ۲۸۴۲، وصحیح مسلم، الجہاد، حدیث ۱۷۷۶) (۳) حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کو دین اسلام کا پیغام پہنچ چکا تھا۔ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ مزید تصدیق اور اعلان کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ (۴) مندرجہ بالا تینوں روایات کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوں الگ الگ واقعات ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ دوسرا اور تیسرا ایک ہی واقعہ ہے اور ان میں جو اختلاف ہے یہ رواۃ کے بیان کا اختلاف ہے۔ (۱) یہ دونوں حضرت لیث کے شاگرد ہیں۔ یعقوب بن ابراہیم نے حضرت لیث اور سعید کے درمیان ابن عجلان وغیرہ کا واسطہ ذکر کیا ہے جبکہ عیسیٰ بن حماد نے کوئی ایسا واسطہ ذکر نہیں کیا۔ اور یہی روایت درست ہے۔ واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ بہت سمجھ دار شخص تھے کہ آپ کے پاس حاضری اور اظہار ایمان میں جلد بازی نہیں کی۔ تسلی سے اونٹ کو بٹھایا، گھٹنا باندھا، پوری تحقیق و تفتیش کی اور اس میں کسی قسم کی رعایت نہیں کی۔ جب یقین ہوگیا تو پھر اپنے ایمان کا اعلان کیا اور پھر اپنا تعارف کروایا۔ یہ اپنی قوم کے سردار تھے… (۲) ’’ابن عبدالمطلب‘‘ عرب میں اسی نسبت سے مشہور تھے کیونکہ آپ کے دادا عبدالمطلب مشہور شخصیت تھے جبکہ آپ کے والد شہرت یاب ہونے سے پہلے اور آپ کی پیدائش سے بھی پہلے فوت ہو چکے تھے۔ اس وقت وہ بالکل نوجوان تھے، لہٰذا وہ زیادہ معروف نہ تھے، نیز آپ کی ابتدائی پرورش بھی آپ کے دادا ہی نے کی تھی۔ خود رسول اللہﷺ نے بھی غزوئہ حنین میں یوں ہی کہا تھا: [اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ] (صحیح البخاری، الجہاد والسیر، حدیث: ۲۸۴۲، وصحیح مسلم، الجہاد، حدیث ۱۷۷۶) (۳) حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کو دین اسلام کا پیغام پہنچ چکا تھا۔ حضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ مزید تصدیق اور اعلان کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ (۴) مندرجہ بالا تینوں روایات کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوں الگ الگ واقعات ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ دوسرا اور تیسرا ایک ہی واقعہ ہے اور ان میں جو اختلاف ہے یہ رواۃ کے بیان کا اختلاف ہے۔