سنن النسائي - حدیث 2092

كِتَابُ الصِّيَامِ بَاب وُجُوبِ الصِّيَامِ صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ وَهُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو سُهَيْلٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ أَنَّ أَعْرَابِيًّا جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَائِرَ الرَّأْسِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي مَاذَا فَرَضَ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ الصَّلَاةِ قَالَ الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ شَيْئًا قَالَ أَخْبِرْنِي بِمَا افْتَرَضَ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ الصِّيَامِ قَالَ صِيَامُ شَهْرِ رَمَضَانَ إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ شَيْئًا قَالَ أَخْبِرْنِي بِمَا افْتَرَضَ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ الزَّكَاةِ فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرَائِعِ الْإِسْلَامِ فَقَالَ وَالَّذِي أَكْرَمَكَ لَا أَتَطَوَّعُ شَيْئًا لَا أَنْقُصُ مِمَّا فَرَضَ اللَّهُ عَلَيَّ شَيْئًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ أَوْ دَخَلَ الْجَنَّةَ إِنْ صَدَقَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2092

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل روزے کی فرضیت حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک بکھرے بالوں والا اعرابی رسول اللہﷺ کے پاس ایا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! مجھے بتائیے، اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کتنی نمازیں فرض کی ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’پانچ نمازیں الا یہ کہ تو خوشی سے مزید پڑھے۔‘‘ اس نے کہا: مجھے بتائیے، اللہ تعالیٰ نے مجھ پر روزے کتنے فرض کیے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’ماہ رمضان کے روزے، مگر یہ کہ تو خوشی سے زائد رکھے۔‘‘ اس نے کہا: مجھے بتائیے، اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کتنی زکاۃ فرض کی ہے؟ تو رسول اللہﷺ نے اسے اسلام (اور زکاۃ) کے (تفصیلی) احکام بتائے۔ وہ کہنے لگا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو عزت بخشی! میں اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ فرائض سے نہ زائد کچھ کروں گا اور نہ ان میں کمی کروں گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اگر یہ اپنی بات پر پکا رہا تو کامیاب ہو جائے گا یا جنت میں داخل ہو جائے گا۔‘‘
تشریح : ۱) روزے شعبان ۲ ہجری کو فرض ہوئے۔ روزؤں کی فرضیت قرآن وسنت اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ (۲) ’’نہ کمی کروں گا‘‘ یعنی ظاہر گنتی وغیرہ کے لحاظ سے، ورنہ ادائیگی میں نقص نہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ (۳) ’’اگر یہ اپنی بات پر پکا رہا‘‘ یعنی وہ فرائض میں کمی نہ کرے گا۔ (نہ یہ کہ ان سے زیادتی نہ کرے گا کیونکہ نوافل کی اداورنہ ادائیگی میں نقص نہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ (۳) ’’اگر یہ اپنی بات پر پکا رہا‘‘ یعنی وہ فرائض میں کمی نہ کرے گا۔ (نہ یہ کہ ان سے زیادتی نہ کرے گا کیونکہ نوافل کی ادائیگی تو مطلوب ہے اور بیان میں مذکور بھی ہے۔ اور یہی مشکل چیز ہے۔) یا مطلب یہ ہے کہ وہ فرائض میں اپنی طرف سے اضافہ نہ کرے گا۔ ۱) روزے شعبان ۲ ہجری کو فرض ہوئے۔ روزؤں کی فرضیت قرآن وسنت اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ (۲) ’’نہ کمی کروں گا‘‘ یعنی ظاہر گنتی وغیرہ کے لحاظ سے، ورنہ ادائیگی میں نقص نہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ (۳) ’’اگر یہ اپنی بات پر پکا رہا‘‘ یعنی وہ فرائض میں کمی نہ کرے گا۔ (نہ یہ کہ ان سے زیادتی نہ کرے گا کیونکہ نوافل کی اداورنہ ادائیگی میں نقص نہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ (۳) ’’اگر یہ اپنی بات پر پکا رہا‘‘ یعنی وہ فرائض میں کمی نہ کرے گا۔ (نہ یہ کہ ان سے زیادتی نہ کرے گا کیونکہ نوافل کی ادائیگی تو مطلوب ہے اور بیان میں مذکور بھی ہے۔ اور یہی مشکل چیز ہے۔) یا مطلب یہ ہے کہ وہ فرائض میں اپنی طرف سے اضافہ نہ کرے گا۔