سنن النسائي - حدیث 2089

كِتَابُ الْجَنَائِزِ ذِكْرُ أَوَّلِ مَنْ يُكْسَى صحيح أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، وَوَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، وَأَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَوْعِظَةِ فَقَالَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عُرَاةً»، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: حُفَاةً غُرْلًا، وَقَالَ وَكِيعٌ وَوَهْبٌ: عُرَاةً غُرْلًا، {كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ} [الأنبياء: 104] قَالَ: «أَوَّلُ مَنْ يُكْسَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَإِنَّهُ سَيُؤْتَى» - قَالَ أَبُو دَاوُدَ: «يُجَاءُ»، وَقَالَ وَهْبٌ وَوَكِيعٌ -: سَيُؤْتَى بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِي فَيُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ، فَأَقُولُ: «رَبِّ أَصْحَابِي»، فَيُقَالُ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ، فَأَقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ: {وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي} [المائدة: 117] إِلَى قَوْلِهِ {وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ} [المائدة: 118] الْآيَةَ، فَيُقَالُ: إِنَّ هَؤُلَاءِ لَمْ يَزَالُوا مُدْبِرِينَ ، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: «مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2089

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل سب سے پہلےکس کو لباس پہنایا جائے گا؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ئ وعظ و نصیحت کے لیے کھڑے ہوئے تو فرمایا: ’’اے لوگو! یقینا تمھیں اللہ تعالیٰ کے سامنے ننگے جسم، ننگے پاؤں بغیر ختنے کے جمع کیا جائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (کما بدانا اول خلق نعبدہ) ’’جس طرح ہم نے پہلے پیدا کیا تھا، اسی طرح ہم پلٹائیں گے۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو لباس پہنایا جائے گا۔ میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے، پھر انھیں بائیں طرف نکال لیا جائے گا۔ میں کہوں گا: اے میرے رب! یہ تو میری امت سے ہیں (یا میرے ساتھی ہیں؟) تو کہا جائے گا: آپ نہیں جانتے، انھوں نے آپ کی عدم موجودگی میں کیا کچھ کیا۔ تو میں (اسی طرح) کہوں گا: جس طرح اللہ کے نیک بندے (حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام) کا قول ہے: (وکنت علیھم شھیدا ما دمت فیھم ……… وان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم) ’’(اے اللہ!) میں تو ان پر گواہ تھا جب تک میں ان میں رہا، جب تو نے مجھے اپنے قبضے میں لے لیا، پھر تو تو ہی ان پر نگران تھا (لہٰذا تجھے ہی ان کے کاموں کا علم ہے) اور تو ہر چیز پر خوب گواہ ہے، اگر تو عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر بخشش دے تو بے شک تو غالب ہے خوب حکمت والا ہے۔‘‘ پھر کہا جائے گا: جب سے آپ ان کو چھوڑ کر (ہمارے پاس) آگئے یہ اسی وقت سے مرتد ہوگئے تھے اور مرتد ہی رہے۔‘‘
تشریح : (۱) اس روایت کی کچھ باتوں کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ (دیکھیے، حدیث: ۲۰۸۴) (۲) ’’بائیں طرف‘‘ یعنی انھیں جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ جنہمیوں کو اصحاب اشمال کہا گیا ہے۔ (۳) ’’اسی وقت مرتد ہوگئے تھے‘‘ فتنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد شروع ہوگیا تھا اور اب تک جاری ہے۔ کوئی نہ کوئی بدنصیب مرتد ہوتا ہی رہتا ہے۔ أعاذنا اللہ منہ۔ ممکن ہے صرف وہ لوگ مراد ہوں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد مرتد ہوگئے تھے اور جن سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ برسر پیکار ہوئے۔ اور ممکن ہے اسلام سے ارتداد کے بجائے سنن سے ارتداد مقصود ہو، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بدعتی ہوگئے تھے اور اصل اسلامی تعلیمات سے انحراف کرکے اسی بدعتی انحراف پر قائم رہے۔ أعاذنا اللہ من البدع و الخرافات۔ (۱) اس روایت کی کچھ باتوں کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ (دیکھیے، حدیث: ۲۰۸۴) (۲) ’’بائیں طرف‘‘ یعنی انھیں جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ جنہمیوں کو اصحاب اشمال کہا گیا ہے۔ (۳) ’’اسی وقت مرتد ہوگئے تھے‘‘ فتنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد شروع ہوگیا تھا اور اب تک جاری ہے۔ کوئی نہ کوئی بدنصیب مرتد ہوتا ہی رہتا ہے۔ أعاذنا اللہ منہ۔ ممکن ہے صرف وہ لوگ مراد ہوں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد مرتد ہوگئے تھے اور جن سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ برسر پیکار ہوئے۔ اور ممکن ہے اسلام سے ارتداد کے بجائے سنن سے ارتداد مقصود ہو، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بدعتی ہوگئے تھے اور اصل اسلامی تعلیمات سے انحراف کرکے اسی بدعتی انحراف پر قائم رہے۔ أعاذنا اللہ من البدع و الخرافات۔