سنن النسائي - حدیث 2087

كِتَابُ الْجَنَائِزِ الْبَعْثُ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبُ بْنُ خَالِدٍ أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى ثَلَاثِ طَرَائِقَ: رَاغِبِينَ رَاهِبِينَ، اثْنَانِ عَلَى بَعِيرٍ، وَثَلَاثَةٌ عَلَى بَعِيرٍ، وَأَرْبَعَةٌ عَلَى بَعِيرٍ، وَعَشْرَةٌ عَلَى بَعِيرٍ، وَتَحْشُرُ بَقِيَّتَهُمُ النَّارُ تَقِيلُ مَعَهُمْ حَيْثُ قَالُوا، وَتَبِيتُ مَعَهُمْ حَيْثُ بَاتُوا، وَتُصْبِحُ مَعَهُمْ حَيْثُ أَصْبَحُوا، وَتُمْسِي مَعَهُمْ حَيْثُ أَمْسَوْا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2087

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل (قیامت کے دن )قبروں سے اٹھایا جانا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن لوگ تین حالتوں میں اکٹھے کیے جائیں گے۔ ایک گروہ رحمت کی امید رکھے ہوئے اپنے انجام سے ڈرتا ہوگا۔ (ااور دوسرا گروہ) دو آدمی ایک اونٹ پر ہوں گے یا تین آدمی ایک اونٹ پر یا چار ایک اونٹ پر یا دس آدمی ایک اونٹ پر اور باقی لوگوں (تیسرے گروہ) کو آگ اکٹھا کرے گی۔ جہاں وہ لوگ دوپہر کو آرام کے لیے ٹھہریں گے، آگ بھی وہاں ان کے ساتھ ٹھہرے گی۔ اور جہاں وہ رات گزاریں گے، آگ بھی ان کے ساتھ رات گزارے گی۔ جہاں وہ صبح کریں گے، وہاں آگ بھی ان کے ساتھ صبح کرے گی اور جہاں وہ شام کریں گے، وہیں آگ بھی ان کے ساتھ شام کرے گی۔‘‘
تشریح : (۱)’’قیامت کے دن‘‘ ظاہر روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حشر قیامت کے دن نہیں بلکہ قیامت سے پہلے ہوگا۔ بہت سے محدثین نے اس قسم کی روایات کو علامات قیامت میں ذکر کیا ہے کیونکہ اس میں اونٹوں، دوپہر، رات، صبح اور شام کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے یہ چیزیں دنیا میں ہیں نہ کہ قیامت کے روز۔ اگرچہ بعض اہل علم نے اسے قیامت ہی کے دن پر محمول کیا ہے مگر اس میں بہت تکلف ہے۔ قیامت کے دن سے مراد قرب قیامت بھی ہوسکتا ہے اور یہی صحیح ہے۔ (۲) ’’تین حالتوں میں‘‘ یعنی کچھ خالص نیک، کچھ ملے جلے کاموں والے، کچھ خالص کافر۔ یا حشر کی تین حالتیں مراد ہیں: کچھ لوگ تو وقت ہی پر رغبت اور رہبت کے زیر اثر اپنے آپ محشر میں پہنچ جائیں گے۔ کچھ لوگ تنگ وقت میں بھاگیں گے جب سواریوں کی کمی ہوگی، پھر دو دو، تین تین، چار چار بلکہ اس سے بھی زیادہ ایک اونٹ پر سوار ہوکر بڑی تنگی کے ساتھ پہنچیں گے۔ کچھ لوگ آگ کے ساتھ زبردستی اکٹھے کیے جائیں گے۔ (۳) یہ آگ قیامت سے قبل عدن کے ساحل سے نکلے گی۔ (صحیح مسلم، باب في الآیات التي تکون قبل اساعۃ، حدیث: ۲۹۰۱) بعض لوگوں نے اس آگ سے حقیقی آگ کے بجائے فتنہ مراد لیا ہے اور مجازاً فتنے کو بھی آگ کہہ لیا جاتا ہے لیکن پہلی بات ہی درست ہے۔ واللہ أعلم۔ (۱)’’قیامت کے دن‘‘ ظاہر روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حشر قیامت کے دن نہیں بلکہ قیامت سے پہلے ہوگا۔ بہت سے محدثین نے اس قسم کی روایات کو علامات قیامت میں ذکر کیا ہے کیونکہ اس میں اونٹوں، دوپہر، رات، صبح اور شام کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے یہ چیزیں دنیا میں ہیں نہ کہ قیامت کے روز۔ اگرچہ بعض اہل علم نے اسے قیامت ہی کے دن پر محمول کیا ہے مگر اس میں بہت تکلف ہے۔ قیامت کے دن سے مراد قرب قیامت بھی ہوسکتا ہے اور یہی صحیح ہے۔ (۲) ’’تین حالتوں میں‘‘ یعنی کچھ خالص نیک، کچھ ملے جلے کاموں والے، کچھ خالص کافر۔ یا حشر کی تین حالتیں مراد ہیں: کچھ لوگ تو وقت ہی پر رغبت اور رہبت کے زیر اثر اپنے آپ محشر میں پہنچ جائیں گے۔ کچھ لوگ تنگ وقت میں بھاگیں گے جب سواریوں کی کمی ہوگی، پھر دو دو، تین تین، چار چار بلکہ اس سے بھی زیادہ ایک اونٹ پر سوار ہوکر بڑی تنگی کے ساتھ پہنچیں گے۔ کچھ لوگ آگ کے ساتھ زبردستی اکٹھے کیے جائیں گے۔ (۳) یہ آگ قیامت سے قبل عدن کے ساحل سے نکلے گی۔ (صحیح مسلم، باب في الآیات التي تکون قبل اساعۃ، حدیث: ۲۹۰۱) بعض لوگوں نے اس آگ سے حقیقی آگ کے بجائے فتنہ مراد لیا ہے اور مجازاً فتنے کو بھی آگ کہہ لیا جاتا ہے لیکن پہلی بات ہی درست ہے۔ واللہ أعلم۔