سنن النسائي - حدیث 2080

كِتَابُ الْجَنَائِزِ أَرْوَاحُ الْمُؤْمِنِينَ صحيح أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ اللَّيْثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: كَذَّبَنِي ابْنُ آدَمَ، وَلَمْ يَكُنْ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يُكَذِّبَنِي، وَشَتَمَنِي ابْنُ آدَمَ، وَلَمْ يَكُنْ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَشْتُمَنِي، أَمَّا تَكْذِيبُهُ إِيَّايَ، فَقَوْلُهُ: إِنِّي لَا أُعِيدُهُ كَمَا بَدَأْتُهُ، وَلَيْسَ آخِرُ الْخَلْقِ بِأَعَزَّ عَلَيَّ مِنْ أَوَّلِهِ، وَأَمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ، فَقَوْلُهُ: اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا وَأَنَا اللَّهُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ، لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لِي كُفُوًا أَحَدٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2080

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل مو منین کی روحیں حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا :" اللہ عزوجل نے فر مایا : آدم کا بیٹا میری تکذیب کر تا ہے ، حالانکہ اسے میری تکذیب جچتی نہیں ۔ (اسی طرح) آدم کا یبٹا مجھے گالی دیتا ہے ، حا لانکہ اسے جچتا نہیں کہ وہ مجھے گالی دے ۔ اس کا میری تکذیب کر نا تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے : اللہ تعالیٰ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کرسکے گا، حالانکہ میں نے اسے پہلی دفعہ پیدا کیا ہے اور دوسری دفعہ بنایا میرے لیے پہلی دفعہ سے مشکل نہیں ۔ اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے : اللہ تعالی ٰ کی بھی اولا د ہے ، حالانکہ میں یکتا اللہ ہو ں جس کو کسی قطعا کو ئی ضرورت نہیں ۔ نہ مجھ سے کوئی پیدا ہو ا ، نہ میں کسی سے پیدا ہو ا اور نہ کوئی میرا ہمسر ہے ۔"
تشریح : (۱) ’’آدم کا بیٹا‘‘ کہنے کا مقصد، انسان کو اس کی اصلیت یاد دلانا ہے کہ اسے شرم آنی چاہیے، وہ مٹی سے بن کر اللہ تعالیٰ کی قدرت سے انکار کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ کو اپنے جیسا سمجھتا ہے۔ (۲) ’’میری تکذیب‘‘ یعنی میری قدرت کی تکذیب، نیز جب قدرت کی تکذیب کر دی تو گویا ذات ہی کی تکذیب کر دی۔ (۳) ’’گالی‘‘ جو چیز کسی کے لائق نہ ہو، اس کی طرف نسبت کرنا گالی ہی ہے، جیسے کسی غیرشادی شدہ کی طرف اولاد کی نسبت کی جائے۔ (۱) ’’آدم کا بیٹا‘‘ کہنے کا مقصد، انسان کو اس کی اصلیت یاد دلانا ہے کہ اسے شرم آنی چاہیے، وہ مٹی سے بن کر اللہ تعالیٰ کی قدرت سے انکار کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ کو اپنے جیسا سمجھتا ہے۔ (۲) ’’میری تکذیب‘‘ یعنی میری قدرت کی تکذیب، نیز جب قدرت کی تکذیب کر دی تو گویا ذات ہی کی تکذیب کر دی۔ (۳) ’’گالی‘‘ جو چیز کسی کے لائق نہ ہو، اس کی طرف نسبت کرنا گالی ہی ہے، جیسے کسی غیرشادی شدہ کی طرف اولاد کی نسبت کی جائے۔