سنن النسائي - حدیث 2078

كِتَابُ الْجَنَائِزِ أَرْوَاحُ الْمُؤْمِنِينَ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ عَلَى قَلِيبِ بَدْرٍ، فَقَالَ: «هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا؟»، قَالَ: «إِنَّهُمْ لَيَسْمَعُونَ الْآنَ مَا أَقُولُ لَهُمْ»، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ، فَقَالَتْ: وَهِلَ ابْنُ عُمَرَ، إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّهُمُ الْآنَ يَعْلَمُونَ أَنَّ الَّذِي كُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ هُوَ الْحَقُّ»، ثُمَّ قَرَأَتْ قَوْلَهُ {إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى} [النمل: 80] حَتَّى قَرَأَتِ الْآيَةَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2078

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل مو منین کی روحیں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ( جنگ بد ر سے اگلے دن ) بد ر کے کنویں کے کنارے جا کھڑ ے ہوئے اور فرمایا : " کیاتم نے اپنے رب کے وعدے کو بر حق پایا ؟" آپ نے فرمایا :اب یہ میری بات کو بخوبی سن رہےہیں ۔" یہ بات حضرت عائشہ ؓ سے ذکر کی گئی تع انھوں نے فرمایا: بن عمر کو غلط فہمی ہوگئی ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا تھا : " اب وہ بخو بی جان چکے ہیں کہ میں جو کچھ ان کو کہتا رہا ہوں ، وہ بالکل سچ ہے ۔" پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پڑ ھا ( انک لا تسمع المو تی ۔۔۔۔) " یقینا تو مردوں کو نہیں سنا سکتا ۔ انھون نے پوری آیت پڑھی ۔
تشریح : حضرت عائشہ ؓ کی مندرجہ بالا تاویل پر بحث حدیث نمبر 2076 میں گز ر چکی ہے ۔ اور اس مسئلے کی مختصر تحقیق بھی ۔ با قی رہا حضرت عائشہ ؓ کا مذکورہ آیت سے استدلا ل تو جواب یہ ہے کہ نفی آپ کے سنانے کی ہے ، نہ کہ اللہ تعالیٰ کے سنانے کی ( ان اللہ یسمع من یشا ) اور آپ کے الفاظ ان کو اللہ تعالیٰ نے سنائے تھے،نیز رسول اللہﷺ نے ان کے سننے کی جو تصریح فر مائی ہے تو وہ سماع وقتی تھا جیسا کہ احادیث میں "الا ن " کی قید آتی ہے ، یقینا یہ رسو ل اللہ ﷺ کا معجزہ ہی ہے ۔ بہر حال سماع مو تیٰ کا مسئلہ متکلم فیہ ہے ۔ اہل علم کا ایک گرہ سماع مو تیٰ کا قائل ہے ، دوسرا قائل نہیں ۔ کچھ محقیقن معتدل ہیں جیسا کہ حدیث نمبر 2076کے فوائد میں گز را لیکن یاد رہے ، سما ع موتیٰ کے قائل ہونے کایہ مطلب ہر گز نہیں کہ انھیں عبادت میں پکارنا جائز ہے کیونکہ حاجات میں تو زندوں کو پکارنا بھی جائز نہیں جو کہ سب کے نزدیک سنتے ہیں ، پھر مردو ں کو پکارنا کس طر ح جائز ہو گا واللہ اعلم ۔ حضرت عائشہ ؓ کی مندرجہ بالا تاویل پر بحث حدیث نمبر 2076 میں گز ر چکی ہے ۔ اور اس مسئلے کی مختصر تحقیق بھی ۔ با قی رہا حضرت عائشہ ؓ کا مذکورہ آیت سے استدلا ل تو جواب یہ ہے کہ نفی آپ کے سنانے کی ہے ، نہ کہ اللہ تعالیٰ کے سنانے کی ( ان اللہ یسمع من یشا ) اور آپ کے الفاظ ان کو اللہ تعالیٰ نے سنائے تھے،نیز رسول اللہﷺ نے ان کے سننے کی جو تصریح فر مائی ہے تو وہ سماع وقتی تھا جیسا کہ احادیث میں "الا ن " کی قید آتی ہے ، یقینا یہ رسو ل اللہ ﷺ کا معجزہ ہی ہے ۔ بہر حال سماع مو تیٰ کا مسئلہ متکلم فیہ ہے ۔ اہل علم کا ایک گرہ سماع مو تیٰ کا قائل ہے ، دوسرا قائل نہیں ۔ کچھ محقیقن معتدل ہیں جیسا کہ حدیث نمبر 2076کے فوائد میں گز را لیکن یاد رہے ، سما ع موتیٰ کے قائل ہونے کایہ مطلب ہر گز نہیں کہ انھیں عبادت میں پکارنا جائز ہے کیونکہ حاجات میں تو زندوں کو پکارنا بھی جائز نہیں جو کہ سب کے نزدیک سنتے ہیں ، پھر مردو ں کو پکارنا کس طر ح جائز ہو گا واللہ اعلم ۔