سنن النسائي - حدیث 2076

كِتَابُ الْجَنَائِزِ أَرْوَاحُ الْمُؤْمِنِينَ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ وَهُوَ ابْنُ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ عُمَرَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ أَخَذَ يُحَدِّثُنَا عَنْ أَهْلِ بَدْرٍ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرِينَا مَصَارِعَهُمْ بِالْأَمْسِ، قَالَ: «هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ إِنْ شَاءَ اللَّهُ غَدًا»، قَالَ عُمَرُ: وَالَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِّ مَا أَخْطَئُوا تِيكَ، فَجُعِلُوا فِي بِئْرٍ، فَأَتَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَادَى: «يَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ، يَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ، هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا؟ فَإِنِّي وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي اللَّهُ حَقًّا»، فَقَالَ: عُمَرُ: تُكَلِّمُ أَجْسَادًا لَا أَرْوَاحَ فِيهَا، فَقَالَ: «مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2076

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل مو منین کی روحیں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ وہ ہمیں بدر کے کافر مقتولین کے بارے میں بتانے لگے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جنگ سے ایک دن قبل ہمیں ان کے ہلاک ہونے کی جگہیں دکھا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’ان شاء اللہ کل یہ فلاں کی ہلاکت گاہ ہوگی۔‘‘ حضرت عمر نے فرمایا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو برحق نبی بنایا! وہ ان جگہوں سے ذرہ بھر بھی ادھر ادھر نہیں ہوئے، پھر انھیں ایک کنویں میں پھینک دیا گیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس (اس کنویں پر) گئے اور بلند آواز سے پکارا: ’’اے فلاں بن فلاں! اے فلاح بن فلاح! کیا تم نے سچ پائی وہ چیز جس کا تم سے تمھارے رب نے وعدہ کیا تھا؟ میں نے تو اللہ کے وعدے کو سچ پایا ہے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ ایسے اجسام سے باتیں کر رہے ہیں جن میں روح نہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’تم میری باتوں کو ان سے زیادہ سننے والے نہیں۔‘‘
تشریح : (۱) کفار کی ہلاکت گاہوں کا تعین وحی سے تھا، لہٰذا ہر مقتول آپ کی بیان کردہ جگہ ہی میں مرا۔ (۲) کنویں میں انھیں پھینکنا تعفن سے بچنے کے لیے تھا، نیز اس میں کچھ ان کے جسموں کی حفاظت بھی تھی۔ معلوم ہوا کافر کی لاش کو بھی محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ (۳) ’’بلند آواز سے پکارا‘‘ روایت کے ظاہر الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان مقتولین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سنے۔ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ مردے سنتے ہیں لیکن ان میں حس و حرکت نہیں ہوتی، یعنی جواب نہیں دے سکتے۔ جو اہل علم اس کے قائل نہیں ہیں، وہ اس حدیث میں سماع کو علم کے معنی میں لیتے ہیں بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تو یہ الفاظ آتے ہیں کہ آپ نے اسمع کے بجائے أعلم کے لفظ ہی ارشاد فرمائے تھے۔ دیکھیے، (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: ۳۹۷۹) یعنی اب ان کو پتا چل چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے تھے۔ ان کے نزدیک أسمع کا لفظ سننے والے صحابی کی غلط فہمی ہے۔ مگر محققین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس توجیہ کو ت سلیم نہیں کیا، اس لیے کہ وہ موقع پر موجود نہ تھیں جبکہ راویٔ حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ موقع کے گواہ ہیں، البتہ مجازاً ’’سماع‘‘ سے علم مراد لیا جا سکتا ہے کیونکہ سماع، علم کا سبب ہے۔ سبب بول کر مسبب مراد لینا بلغاء کے کلام میں عام ہے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے اصل یہی ہے کہ مردے نہیں سنتے مگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انھیں کبھی کبھار کوئی بات سنا سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں بھی اللہ تعالیٰ نے انھیں سنا دیں تاکہ ان کی ندامت، حسرت، افسوس اور عذاب میں اضافہ ہو۔ حضرت قتادہ نے یہی مفہوم مراد لیا ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: ۳۹۷۶) تمام نصوص کو تسلیم کرنے کے لیے یہ توجیہ بہت مناسب ہے۔ ورنہ کسی نہ کسی نص کا انکار لازم آئے گا۔ (۱) کفار کی ہلاکت گاہوں کا تعین وحی سے تھا، لہٰذا ہر مقتول آپ کی بیان کردہ جگہ ہی میں مرا۔ (۲) کنویں میں انھیں پھینکنا تعفن سے بچنے کے لیے تھا، نیز اس میں کچھ ان کے جسموں کی حفاظت بھی تھی۔ معلوم ہوا کافر کی لاش کو بھی محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ (۳) ’’بلند آواز سے پکارا‘‘ روایت کے ظاہر الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان مقتولین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سنے۔ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ مردے سنتے ہیں لیکن ان میں حس و حرکت نہیں ہوتی، یعنی جواب نہیں دے سکتے۔ جو اہل علم اس کے قائل نہیں ہیں، وہ اس حدیث میں سماع کو علم کے معنی میں لیتے ہیں بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تو یہ الفاظ آتے ہیں کہ آپ نے اسمع کے بجائے أعلم کے لفظ ہی ارشاد فرمائے تھے۔ دیکھیے، (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: ۳۹۷۹) یعنی اب ان کو پتا چل چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے تھے۔ ان کے نزدیک أسمع کا لفظ سننے والے صحابی کی غلط فہمی ہے۔ مگر محققین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس توجیہ کو ت سلیم نہیں کیا، اس لیے کہ وہ موقع پر موجود نہ تھیں جبکہ راویٔ حدیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ موقع کے گواہ ہیں، البتہ مجازاً ’’سماع‘‘ سے علم مراد لیا جا سکتا ہے کیونکہ سماع، علم کا سبب ہے۔ سبب بول کر مسبب مراد لینا بلغاء کے کلام میں عام ہے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے اصل یہی ہے کہ مردے نہیں سنتے مگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انھیں کبھی کبھار کوئی بات سنا سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں بھی اللہ تعالیٰ نے انھیں سنا دیں تاکہ ان کی ندامت، حسرت، افسوس اور عذاب میں اضافہ ہو۔ حضرت قتادہ نے یہی مفہوم مراد لیا ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: ۳۹۷۶) تمام نصوص کو تسلیم کرنے کے لیے یہ توجیہ بہت مناسب ہے۔ ورنہ کسی نہ کسی نص کا انکار لازم آئے گا۔