كِتَابُ الْجَنَائِزِ التَّعَوُّذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُعَلِّمُهُمْ هَذَا الدُّعَاءَ، كَمَا يُعَلِّمُهُمُ السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ قُولُوا: «اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ»
کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
عذاب قبر سے بچاؤ کی دعاکرنا
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآن کی سورت کی طرح سکھاتے تھے، فرمایا: ’’تم کہو: [اللھم! انا نعوذبک من عذاب جھنم ……… و أعوذبک من فتنۃ المحیا و الممات] اے اللہ! ہم جہنم کے عذاب سے بچنے کے لیے تیری پناہ چاہتے ہیں اور قبر کے عذاب سے بچنے کے لیے تیری پناہ چاہتے ہیں اور (جھوٹے) مسیح دجال کی پزمائش سے بچنے کے لیے تیری پناہ چاہتے ہیں اور زندگی اور موت کے فتنے سے بچنے کے لیے تیری پناہ چاہتے ہیں۔‘‘
تشریح :
’’دجال‘‘ کو ’’مسیح‘‘ اس لیے کہا گیا کہ اسے یہودی اپنا مسیح قرار دیتے ہیں، نجات دہندہ سمجھتے ہیں اور اس کے انتظار میں ہیں، حالانکہ اصلی مسیح تو عسیٰ علیہ السلام ہیں جو کب کے آچکے اور قیامت کے قریب ان کا دوبارہ آسمان سے نزول ہوگا۔ گویا طنزاً دجال کو مسیح کہا گیا ہے۔ ایک وجہ دجال کا ممسوح العین ہونا بھی ہے۔
’’دجال‘‘ کو ’’مسیح‘‘ اس لیے کہا گیا کہ اسے یہودی اپنا مسیح قرار دیتے ہیں، نجات دہندہ سمجھتے ہیں اور اس کے انتظار میں ہیں، حالانکہ اصلی مسیح تو عسیٰ علیہ السلام ہیں جو کب کے آچکے اور قیامت کے قریب ان کا دوبارہ آسمان سے نزول ہوگا۔ گویا طنزاً دجال کو مسیح کہا گیا ہے۔ ایک وجہ دجال کا ممسوح العین ہونا بھی ہے۔