كِتَابُ الْجَنَائِزِ التَّعَوُّذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ صحيح أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ تَقُولُ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ الْفِتْنَةَ الَّتِي يُفْتَنُ بِهَا الْمَرْءُ فِي قَبْرِهِ، فَلَمَّا ذَكَرَ ذَلِكَ ضَجَّ الْمُسْلِمُونَ ضَجَّةً حَالَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ أَنْ أَفْهَمَ كَلَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا سَكَنَتْ ضَجَّتُهُمْ قُلْتُ لِرَجُلٍ قَرِيبٍ مِنِّي: أَيْ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، مَاذَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آخِرِ قَوْلِهِ؟ قَالَ: «قَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَرِيبًا مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ»
کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
عذاب قبر سے بچاؤ کی دعاکرنا
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (خطبے کے لیے) کھڑے ہوئے تو آپ نے اس آزمائش کا ذکر فرمایا جس میں ہر شخص کو قبر کے اندر مبتلا ہونا پڑے گا۔ جب آپ نے یہ ذکر فرمایا تو مسلمان آہ و بکا کرنے لگے حتی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہ سمجھ سکی۔ جب ان کی آہ و بکا کی آواز رک گئی تو میں نے ایک قریبی شخص سے کہا: اللہ تعالیٰ ٰتیرے لیے برکت فرمائے! رسول اللہ ئ نے پخر میں کیا فرمایا ہے؟ اس نے کہا: آپ نے فرمایا تھا: ’’مجھے وحی کی گئی ہے کہ قبروں میں تمھاری فتنۂ دجال جیسی آزمائش ہوگی۔‘‘
تشریح :
’’فتنہ دجال جیسی آزمائش‘‘ سے مراد قبر میں سوال و جواب ہے۔ اسے فتنۂ دجال سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ دونوں پر خطر مقام ہیں۔ دجال کی دہشت، اقتدار و اختیارات کے سامنے کلمۂ حق پر قائم رہنا تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح قبر کی ہولناکی، فرشتوں کا رعب، دہشت اور قید تنہائی کوئی معمولی چیز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر ’’درست بات‘‘ پر قائم رہنا سخت مشکل ہوگا۔
’’فتنہ دجال جیسی آزمائش‘‘ سے مراد قبر میں سوال و جواب ہے۔ اسے فتنۂ دجال سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ دونوں پر خطر مقام ہیں۔ دجال کی دہشت، اقتدار و اختیارات کے سامنے کلمۂ حق پر قائم رہنا تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح قبر کی ہولناکی، فرشتوں کا رعب، دہشت اور قید تنہائی کوئی معمولی چیز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر ’’درست بات‘‘ پر قائم رہنا سخت مشکل ہوگا۔