كِتَابُ الْجَنَائِزِ عَذَابُ الْقَبْرِ صحيح أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ صَوْتًا مِنْ قَبْرٍ فَقَالَ: «مَتَى مَاتَ هَذَا؟» قَالُوا: مَاتَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَسُرَّ بِذَلِكَ، وَقَالَ: «لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ عَذَابَ الْقَبْرِ»
کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
عذاب قبر
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قبر سے آواز سنی تو فرمایا: ’’یہ کب فوت ہوا؟‘‘ لوگوں نے بتایا کہ یہ دور جاہلیت میں فوت ہوا تھا۔ تو آپ کو خوشی ہوئی، پھر فرمایا: ’’اگر یہ خطرہ نہ ہو کہ تم مردوں کو دفن نہیں کر و گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمھیں عذاب قبر سنا دے۔‘‘
تشریح :
(۱) اس روایت میں عذاب قبر سے مراد دوسرے معنی ہیں، یعنی گناہوں کے سلسلے میں پہنچنے والا عذاب۔ (۲) ’’خوشی ہوئی‘‘ کہ یہ مدفون شخص مسلمان نہیں تھا۔ مسلمان کو عذاب ہونے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوتی۔ خوشی ہونے سے مراد تکلیف کا نہ ہونا اور فکر مندی کا ختم ہونا ہے، ورنہ نبیٔ کریم و رؤف و رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کو عذاب پر کیسے خوشی ہوسکتی ہے؟ (۳) ’’دفن نہیں کرو گے‘‘ عذاب قبر کے ڈر سے معلوم ہوتا ہے کہ دفن سے پہلے عذاب قبر شروع نہیں ہوتا، البتہ جو لوگ دفن نہیں کرتے، ان کا عذاب مرتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ اور ان کی قبر سے مراد وہ ٹھکانا ہے جو ان کے جسم یا روح کو مرنے کے بعد دنیا و آرت (برزخ) میں ملتا ہے۔ واللہ علیم قدیر۔ (عذاب قبر کی تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: ۲۰۵۲)
(۱) اس روایت میں عذاب قبر سے مراد دوسرے معنی ہیں، یعنی گناہوں کے سلسلے میں پہنچنے والا عذاب۔ (۲) ’’خوشی ہوئی‘‘ کہ یہ مدفون شخص مسلمان نہیں تھا۔ مسلمان کو عذاب ہونے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوتی۔ خوشی ہونے سے مراد تکلیف کا نہ ہونا اور فکر مندی کا ختم ہونا ہے، ورنہ نبیٔ کریم و رؤف و رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کو عذاب پر کیسے خوشی ہوسکتی ہے؟ (۳) ’’دفن نہیں کرو گے‘‘ عذاب قبر کے ڈر سے معلوم ہوتا ہے کہ دفن سے پہلے عذاب قبر شروع نہیں ہوتا، البتہ جو لوگ دفن نہیں کرتے، ان کا عذاب مرتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ اور ان کی قبر سے مراد وہ ٹھکانا ہے جو ان کے جسم یا روح کو مرنے کے بعد دنیا و آرت (برزخ) میں ملتا ہے۔ واللہ علیم قدیر۔ (عذاب قبر کی تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: ۲۰۵۲)