سنن النسائي - حدیث 2052

كِتَابُ الْجَنَائِزِ الْمَسْأَلَةُ فِي الْقَبْرِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَقَ، قَالَا: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ قَتَادَةَ، أَنْبَأَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ»، قَالَ: فَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ، فَيُقْعِدَانِهِ فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ، فَيَقُولُ: أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، فَيُقَالُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّةِ ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2052

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل قبرمیں سوال وجواب حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میت کو جب قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اسے دفن کرکے واپس آ جاتے ہیں تو ابھی وہ ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے کہ اس کے پاس دو فرشتے آ جاتے ہیں۔ وہ اسے بٹھا لیتے ہیں اور کہتے ہیں: تو اس آدمی کے بارے میں کیا کہتا تھا؟ مومن شخص تو کہتا ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اسے کہا جاتا ہے: تو اپنے جہنمی ٹھکانے کو دیکھ۔ اللہ تعالیٰ نے تجھے اس کے بجائے جنتی ٹھکانا دے دیا ہے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ دونوں ٹھکانوں کو دیکھتا ہے۔‘‘
تشریح : (۱) فرشتوں کا آنا، اسے بٹھانا اور پھر سوال و جواب کرنا اور دیگر باتیں برزخی احوال ہیں۔ اس کا دنیوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ برزخی زندگی کی حقیقت تو بیان نہیں کی جا سکتی کہ وہ ہماری عقل و حواص سے ماوراء ہے، البتہ اس کی مثال خواب سے دی جا سکتی ہے کہ خواب دیکھنے والا آدمی اپنے خواب میں بولتا بھی ہے، سنتا بھی ہے، چلتا پھرتا بھی ہے، روتا ہنستا، کھاتا پیتا اور دوڑتا بھاگتا بھی ہے لیکن اس کا جسم بالکل ساکن ہوتا ہے۔ اس کے جسم کو دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں سمجھ سکتا کہ وہ خواب کی دنیا میں اتنا کچھ کر رہا ہے۔ میت کا حال بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ (۲) ’’اس آدمی‘‘ سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ گویا یہ ذہنی اشارہ ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دکھائے جاتے ہیں مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ بالفرض ایسا ہو تو وہ آپ کا تصور ہوگا جو اس کے ذہن میں ڈالا جائے گا نہ کہ آپ کا حقیقی وجود، جیسے ٹی وی وغیرہ میں ہوتا ہے، یعنی اس سے آپ حاضر و ناظر ثابت نہ ہوسکیں گے۔ (۳) ’’دونوں کو دیکھتا ہے‘‘ صحیح حدیث ہے کہ ہر شخص کا جنت میں بھی ٹھکانا ہے اور جہنم میں بھی لیکن جہنم میں جانے والے چونکہ جنت میں جانے کا استحقاق کھو بیٹھتا ہے، اس لیے وہ جنتی ٹھکانے سے محروم ہو جاتا ہے اور جنت میں جانے والا اپنے عمل کی وجہ سے جہنم سے بچ جاتا ہے تو وہ جہنمی ٹھکانے سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ جعلنا اللہ منھم۔ (۱) فرشتوں کا آنا، اسے بٹھانا اور پھر سوال و جواب کرنا اور دیگر باتیں برزخی احوال ہیں۔ اس کا دنیوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ برزخی زندگی کی حقیقت تو بیان نہیں کی جا سکتی کہ وہ ہماری عقل و حواص سے ماوراء ہے، البتہ اس کی مثال خواب سے دی جا سکتی ہے کہ خواب دیکھنے والا آدمی اپنے خواب میں بولتا بھی ہے، سنتا بھی ہے، چلتا پھرتا بھی ہے، روتا ہنستا، کھاتا پیتا اور دوڑتا بھاگتا بھی ہے لیکن اس کا جسم بالکل ساکن ہوتا ہے۔ اس کے جسم کو دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں سمجھ سکتا کہ وہ خواب کی دنیا میں اتنا کچھ کر رہا ہے۔ میت کا حال بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ (۲) ’’اس آدمی‘‘ سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ گویا یہ ذہنی اشارہ ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دکھائے جاتے ہیں مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ بالفرض ایسا ہو تو وہ آپ کا تصور ہوگا جو اس کے ذہن میں ڈالا جائے گا نہ کہ آپ کا حقیقی وجود، جیسے ٹی وی وغیرہ میں ہوتا ہے، یعنی اس سے آپ حاضر و ناظر ثابت نہ ہوسکیں گے۔ (۳) ’’دونوں کو دیکھتا ہے‘‘ صحیح حدیث ہے کہ ہر شخص کا جنت میں بھی ٹھکانا ہے اور جہنم میں بھی لیکن جہنم میں جانے والے چونکہ جنت میں جانے کا استحقاق کھو بیٹھتا ہے، اس لیے وہ جنتی ٹھکانے سے محروم ہو جاتا ہے اور جنت میں جانے والا اپنے عمل کی وجہ سے جہنم سے بچ جاتا ہے تو وہ جہنمی ٹھکانے سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ جعلنا اللہ منھم۔