سنن النسائي - حدیث 2045

كِتَابُ الْجَنَائِزِ التَّغْلِيظُ فِي اتِّخَاذِ السُّرُجِ عَلَى الْقُبُورِ ضعيف أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ، وَالْمُتَّخِذِينَ عَلَيْهَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2045

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل قبروں پر چراغ جلانا سخت منع ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرستان جانے والی عورتوں اور قبروں پر عبادت گاہیں بنانے والوں اور چراغ جلانے والوں پر لعنت کی ہے۔‘‘
تشریح : (۱) محقق کتاب نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے آخری لفظ [والسرج] ’’چراغ‘‘ کے علاوہ باقی روایت کو شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے۔ اور دلائل کی رو سے انھی کی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔ نیز زائرات القبور کی بجائے زوارات القبور کے الفاظ صحیح ثابت ہیں، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو کثرت سے قبرستان جاتی ہیں۔ بنا بریں عورتوں کے لیے بھی زیارت قبور ویسے ہی مستحب ہے جیسے مردو کے لیے۔ عورتوں کا خصوصی ذکر اس لیے کہ ان میں صبر اور حوصلے کی کمی ہوتی ہے۔ جزع فزع زیادہ ہوتی ہے، لہٰذا کبھی کبھار ہی جائیں مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد: ۳۶۵-۳۶۳/۴، و سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ: ۳۹۶-۳۹۳/۱، رقم: ۲۲۵، و أحکام الجنائز للألبانی، ص:۲۳۷-۲۳۶) (۲) قبروں پر عبادت گاہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ وہاں نماز وغیرہ پڑھے جس میں قبر کی طرف نماز پڑھے جانے کا بھی امکان ہو۔ قبر پر مکان بنا ہو تو اس کا حکم بھی قبر جیسا ہے، یعنی اس کی طرف بھی نماز پڑھنا منع ہے۔ قبر کے قریب مسجد بنانا بھی کراہت سے خالی نہیں۔ یہ ایسے ہے جیسے نجاست کے قریب نماز پڑھی جائے کہ نماز تو ہو جائے گی مگر قبیح چیز ہے۔ قبر، مساجد بلکہ آبادی سے الگ اور دور بنانی چاہیے۔ قبر کے اوپر عمارت، خواہ وہ قبر کی حفاظت کے لیے ہو یا زائر کی سہولت کے لیے، منع ہے۔ اگر قبر پہلے سے ہو تو عمارت ڈھا دینی چاہیے اور اگر عمارت پہلے تھی تو قبر کو اکھاڑ دینا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر جو عمارت بنی ہوئی ہے، وہ صدیوں بعد سلاطین کی تعمیر کردہ ہے، ورنہ صحابہ و تابعین کے دور میں ایسا نہیں تھا، اس لیے اس سے قبروں پر عمارتیں بنانے پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔ (۳) حدیث کے آخری جملے [والسراج] یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چراغ جلانے والوں پر لعنت کی ہے۔‘‘ کی تصعیف سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس کی ممانعت ثابت نہیں بلکہ عمومی دلائل سے اس کی ممانعت ثابت ہوتی ہے، مثلاً: کل بدعۃ ضلالۃ و کل ضلالۃ فی النار کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے، نیز قبر پر چراغ جلانا یا تو قبر کی تعظی کے لیے ہوگا تو ایسی تعظیم منع ہے بلکہ یہ تو قبر پر چڑھاوے کی طرح ہے، یا بے فائدہ ہوگا۔ قبروں پر روشنی کی ضرورت نہیں، ان کے اندر روشنی کی ضرورت ہے اور وہ اعمال صالحہ کے ساتھ ہے۔ اگر آنے جانے والوں کے لیے روشنی کرنا مقصود ہو تو قبر کے بجائے کسی اور چیز پر روشنی کا انتظام کیا جائے تاکہ تعظیم کا وہم نہ ہو۔ واللہ أعلم۔ (۱) محقق کتاب نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے آخری لفظ [والسرج] ’’چراغ‘‘ کے علاوہ باقی روایت کو شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے۔ اور دلائل کی رو سے انھی کی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔ نیز زائرات القبور کی بجائے زوارات القبور کے الفاظ صحیح ثابت ہیں، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو کثرت سے قبرستان جاتی ہیں۔ بنا بریں عورتوں کے لیے بھی زیارت قبور ویسے ہی مستحب ہے جیسے مردو کے لیے۔ عورتوں کا خصوصی ذکر اس لیے کہ ان میں صبر اور حوصلے کی کمی ہوتی ہے۔ جزع فزع زیادہ ہوتی ہے، لہٰذا کبھی کبھار ہی جائیں مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد: ۳۶۵-۳۶۳/۴، و سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ: ۳۹۶-۳۹۳/۱، رقم: ۲۲۵، و أحکام الجنائز للألبانی، ص:۲۳۷-۲۳۶) (۲) قبروں پر عبادت گاہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ وہاں نماز وغیرہ پڑھے جس میں قبر کی طرف نماز پڑھے جانے کا بھی امکان ہو۔ قبر پر مکان بنا ہو تو اس کا حکم بھی قبر جیسا ہے، یعنی اس کی طرف بھی نماز پڑھنا منع ہے۔ قبر کے قریب مسجد بنانا بھی کراہت سے خالی نہیں۔ یہ ایسے ہے جیسے نجاست کے قریب نماز پڑھی جائے کہ نماز تو ہو جائے گی مگر قبیح چیز ہے۔ قبر، مساجد بلکہ آبادی سے الگ اور دور بنانی چاہیے۔ قبر کے اوپر عمارت، خواہ وہ قبر کی حفاظت کے لیے ہو یا زائر کی سہولت کے لیے، منع ہے۔ اگر قبر پہلے سے ہو تو عمارت ڈھا دینی چاہیے اور اگر عمارت پہلے تھی تو قبر کو اکھاڑ دینا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر جو عمارت بنی ہوئی ہے، وہ صدیوں بعد سلاطین کی تعمیر کردہ ہے، ورنہ صحابہ و تابعین کے دور میں ایسا نہیں تھا، اس لیے اس سے قبروں پر عمارتیں بنانے پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔ (۳) حدیث کے آخری جملے [والسراج] یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چراغ جلانے والوں پر لعنت کی ہے۔‘‘ کی تصعیف سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس کی ممانعت ثابت نہیں بلکہ عمومی دلائل سے اس کی ممانعت ثابت ہوتی ہے، مثلاً: کل بدعۃ ضلالۃ و کل ضلالۃ فی النار کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے، نیز قبر پر چراغ جلانا یا تو قبر کی تعظی کے لیے ہوگا تو ایسی تعظیم منع ہے بلکہ یہ تو قبر پر چڑھاوے کی طرح ہے، یا بے فائدہ ہوگا۔ قبروں پر روشنی کی ضرورت نہیں، ان کے اندر روشنی کی ضرورت ہے اور وہ اعمال صالحہ کے ساتھ ہے۔ اگر آنے جانے والوں کے لیے روشنی کرنا مقصود ہو تو قبر کے بجائے کسی اور چیز پر روشنی کا انتظام کیا جائے تاکہ تعظیم کا وہم نہ ہو۔ واللہ أعلم۔