سنن النسائي - حدیث 2042

كِتَابُ الْجَنَائِزِ الْأَمْرُ بِالِاسْتِغْفَارِ لِلْمُؤْمِنِينَ صحيح أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَتَى عَلَى الْمَقَابِرِ فَقَالَ: «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ وَنَحْنُ لَكُمْ تَبَعٌ، أَسْأَلُ اللَّهَ الْعَافِيَةَ لَنَا وَلَكُمْ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2042

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل مومنین کےلیے استغفار کرنے کاحکم ہے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قبرستان جاتے تو فرماتے: [السلام علیکم اھل الدیار من المومنین ……… أسال اللہ العافیۃ لنا ولکم] ’’اے اس قبرستان کے مسلمان اور مومن باسیو! تم پر سلامتی ہو۔ یقیناً ہم بھی، اللہ نے چاہا تو، تم سے ملنے والے ہیں۔ تم ہم سے پہلے آگئے ہو۔ ہم تمھارے پیچھے آ رہے ہیں۔ میں اپنے لیے اور تمھارے لیے اللہ تعالیٰ سے خیریت و سلامتی کی دعا کرتا ہوں۔‘‘
تشریح : فوت شدگان سے خطاب صرف اپنے ذہن میں ان کی یاد تازہ ہونے کے لحاظ سے ہے ورنہ انھیں سنانا مقصود ہے نہ جواب لینا کیونکہ یہ دونوں چیزیں ناممکن ہیں۔ خصوصاً اس حدیث میں تو صرف ان کے لیے دعا کی جا رہی ہے، جس میں خطاب مقصود ہی نہیں۔ انسانی زندگی میں اس کی مثالیں عام مل جاتی ہیں۔ بسا اوقات انسان خودکلامی کے انداز میں خطاب کرتا ہے، حالانکہ وہاں کوئی بھی مخاطب موجود نہیں ہوتا، صرف اپنے جذبات کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔ فوت شدگان سے خطاب صرف اپنے ذہن میں ان کی یاد تازہ ہونے کے لحاظ سے ہے ورنہ انھیں سنانا مقصود ہے نہ جواب لینا کیونکہ یہ دونوں چیزیں ناممکن ہیں۔ خصوصاً اس حدیث میں تو صرف ان کے لیے دعا کی جا رہی ہے، جس میں خطاب مقصود ہی نہیں۔ انسانی زندگی میں اس کی مثالیں عام مل جاتی ہیں۔ بسا اوقات انسان خودکلامی کے انداز میں خطاب کرتا ہے، حالانکہ وہاں کوئی بھی مخاطب موجود نہیں ہوتا، صرف اپنے جذبات کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔