كِتَابُ الْجَنَائِزِ الْأَمْرُ بِالِاسْتِغْفَارِ لِلْمُؤْمِنِينَ صحيح أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تُحَدِّثُ، قَالَتْ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي، وَعَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْنَا: بَلَى، قَالَتْ: لَمَّا كَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي هُوَ عِنْدِي ـ تَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ـ انْقَلَبَ فَوَضَعَ نَعْلَيْهِ عِنْدَ رِجْلَيْهِ، وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَى فِرَاشِهِ، فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنِّي قَدْ رَقَدْتُ، ثُمَّ انْتَعَلَ رُوَيْدًا، وَأَخَذَ رِدَاءَهُ رُوَيْدًا، ثُمَّ فَتَحَ الْبَابَ رُوَيْدًا، وَخَرَجَ رُوَيْدًا، وَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي، وَاخْتَمَرْتُ، وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي، وَانْطَلَقْتُ فِي إِثْرِهِ حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَأَطَالَ ثُمَّ انْحَرَفَ، فَانْحَرَفْتُ، فَأَسْرَعَ، فَأَسْرَعْتُ، فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ، فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ، وَسَبَقْتُهُ فَدَخَلْتُ فَلَيْسَ إِلَّا أَنْ اضْطَجَعْتُ، فَدَخَلَ فَقَالَ: «مَا لَكِ يَا عَائِشَةُ حَشْيَا رَابِيَةً؟»، قَالَتْ: لَا، قَالَ: «لَتُخْبِرِنِّي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ»، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَأبِي أَنْتَ وَأُمِّي، فَأَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ، قَالَ: «فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي؟» قَالَتْ: نَعَمْ، فَلَهَزَنِي فِي صَدْرِي لَهْزَةً أَوْجَعَتْنِي، ثُمَّ قَالَ: «أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ؟»، قُلْتُ: مَهْمَا يَكْتُمُ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ، قَالَ: «فَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ، وَلَمْ يَدْخُلْ عَلَيَّ، وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ، فَنَادَانِي فَأَخْفَى مِنْكِ، فَأَجَبْتُهُ فَأَخْفَيْتُهُ مِنْكِ، فَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ، وَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَكِ، وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي، فَأَمَرَنِي أَنْ آتِيَ الْبَقِيعَ، فَأَسْتَغْفِرَ لَهُمْ»، قُلْتُ: كَيْفَ أَقُولُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «قُولِي السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، يَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ»
کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
مومنین کےلیے استغفار کرنے کاحکم ہے
حضرت محمد بن قیس بن مخرمہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ فرماتے سنا: کیا میں تم کو اپنے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک واقعہ بیان نہ کروں؟ ہم نے کہا: ہاں ضرور۔ انھوں نے فرمایا: ایک مرتبہ میری رات کی باری تھی جس میں آپ میرے ہاں تھے۔ آپ (عشاء کی نماز پڑھ کر) لوٹے تو اپنے جوتے اپنے پاؤں کے پاس اتار کر رکھ لیے اور اپنی چادر کا کنارہ اپنے بستر پر بچھا لیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب آپ نے یہ خیال کیا کہ میں سو گئی ہوں (آپ اٹھے) آہستگی سے جوتے پہنے، چپکے سے چادر پکڑی، پھر ہولے سے دروازہ کھولا اور بغیر آواز کیے نکل گئے۔ میں نے فوراً قمیص پہنی، اوڑھنی اوڑھی، تہ بند باندھا اور آپ کے پیچھے چل پڑی حتی کہ آپ بقیع (قبرستان) میں پہنچ گئے اور تین دفعہ ہاتھ اٹھا اٹھا کر لمبی دعائیں کیں، پھر آپ واپس مڑے تو میں بھی مڑی۔ آپ تیز ہوئے تو میں بھی تیز ہوگئی۔ آپ بھاگنے لگے تو میں بھی بھاگنے لگی۔ آپ نے دوڑ لگا دی تو میں نے بھی دوڑ لگا دی لیکن میں آپ سے (آگے تھی، لہٰذا) پہلے پہنچ گئی اور گھر میں داخل ہو گئی۔ ابھی میں لیٹی ہی تھی کہ آپ تشریف لے آئے اور آپ نے پوچھا: ’’عائشہ! تجھے کیا ہوا؟ تتیرا سانس چڑھا ہوا ہے۔ پیٹ پھولا ہوا ہےڈ‘‘ میں نے کہا: جی! کچھ بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھے سچ سچ بتا دے ورنہ مجھے باریک بین اور خبردار ذات بتا دے گی۔‘‘ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان! پھر میں نے پوری بات بتا دی۔ آپ نے فرمایا: ’’تیرا ہی وہ وجود تھا جو میں نے آگے آگے دیکھا تھا؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے میرے سینے میں اس زور سے مکا مارا کہ مجھے سخت تکلیف ہوئی، پھر فرمایا: ’’کیا تو سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کریں گے؟‘‘ میں نے (دل میں) کہا: لوگوں سے جتنا بھی چھپایا جائے، اللہ تعالیٰ تو اسے جانتا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’جب تو نے مجھے اٹھتے دیکھا تھا تو جبریل میرے پاس آئے تھے لیکن وہ اندر داخل نہیں ہوئے کیونکہ تو کپڑے اتار چکی تھی۔ انھوں نے مجھے (ہلکے سے) بلایا کہ تجھے پتا نہیں چلنے دیا۔ میں نے بھی (ہولے سے) جواب دیا کہ تجھے پتا نہیں چل سکا۔ میرا خیال تھا کہ تو سو چکی ہے، اس لیے میں نے تجھے جگانا مناسب نہ سمجھا۔ مجھے خطرہ تھا کہ تو ڈرنے لگے گی۔ تو جبریل علیہ السلام نے مجھ سے کہا کہ میں بقیع جاؤں اور ان کے لیے بخشش کی دعا کروں۔‘‘ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! (مجھے قبرستان جانے کا موقع ملے تو) میں کیسے دعا کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’تو کہہ: طالسلام علی اھل الدیار ……… وانا ان شاء اللہ بکم لاحقون] اس قبرستان کے مومنین اور مسلمانوں پر سلامتی ہو۔ اور اللہ تعالیٰ ہم میں سے پہلے آنے والوں اور پیچھے رہنے والوں سب پر رحم فرمائے اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم بھی تمھیں ملنے والے ہیں۔
تشریح :
(۱) واقعے کی تفصیلات تو حدیث سے واضح ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا خیال تھا کہ آپ میری باری کی رات کسی اور بیوی کے گھر گئے ہیں، حالانکہ آپ جیسی عادل شخصیت کے لیے یہ ممکن نہ تھا کیونکہ یہ تو ظلم ہے اور نبی کی شخصیت اس سے پاک ہوتی ہے۔ غیرت کے جذبات کی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا دھیان اس حقیقت کی طرف نہ جاسکا۔ تبھی آپ نے ان کے سینے پر مکا مار کر انھیں حقیقت کی طرف توجہ دلائی۔ چونکہ آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر قدم نہیں اٹھاتے تھے، اس لیے اپنے ساتھ اللہ تعالیٰ کا بھی ذکر فرمایا: [ان یحیف اللہ علیک و رسولہ] کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کریں گے؟ (۲) اس سے استدلال کیا گیا ہ کہ آپ پر بیویوں کے درمیان باری مقرر کرنا واجب تھا، ورنہ باری کی خلاف ورزی ظلم نہ ہوتا مگر اس تکلف کی ضرورت نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عاادل شخصیت وجوب کے بغیر بھی کسی کا دل نہیں دکھا سکتی تھی۔ آپ کے اخلاق کریمانہ سے بعید تھا کہ آپ کسی کی دل آزاری کرتے۔ (۳) معلوم ہوا کہ دعا کے قصد سے قبرستان جانا چاہیے اور لمبی دعا کرنی چاہیے۔ [السلام علی اھل الدیار………] کے علاوہ بھی مزید دعا کرنی جائز ہے۔ علاوہ ازیں ہاتھ اٹھا کر کی جائے یا ویسے ہی کر لی جائے، دونوں طرح جائز ہے۔ (۴) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوال اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے معلوم ہوا کہ عورت بھی زیارتِ قبر کے لیے جاسکتی ہے۔ واللہ أعلم۔
(۱) واقعے کی تفصیلات تو حدیث سے واضح ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا خیال تھا کہ آپ میری باری کی رات کسی اور بیوی کے گھر گئے ہیں، حالانکہ آپ جیسی عادل شخصیت کے لیے یہ ممکن نہ تھا کیونکہ یہ تو ظلم ہے اور نبی کی شخصیت اس سے پاک ہوتی ہے۔ غیرت کے جذبات کی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا دھیان اس حقیقت کی طرف نہ جاسکا۔ تبھی آپ نے ان کے سینے پر مکا مار کر انھیں حقیقت کی طرف توجہ دلائی۔ چونکہ آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر قدم نہیں اٹھاتے تھے، اس لیے اپنے ساتھ اللہ تعالیٰ کا بھی ذکر فرمایا: [ان یحیف اللہ علیک و رسولہ] کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کریں گے؟ (۲) اس سے استدلال کیا گیا ہ کہ آپ پر بیویوں کے درمیان باری مقرر کرنا واجب تھا، ورنہ باری کی خلاف ورزی ظلم نہ ہوتا مگر اس تکلف کی ضرورت نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عاادل شخصیت وجوب کے بغیر بھی کسی کا دل نہیں دکھا سکتی تھی۔ آپ کے اخلاق کریمانہ سے بعید تھا کہ آپ کسی کی دل آزاری کرتے۔ (۳) معلوم ہوا کہ دعا کے قصد سے قبرستان جانا چاہیے اور لمبی دعا کرنی چاہیے۔ [السلام علی اھل الدیار………] کے علاوہ بھی مزید دعا کرنی جائز ہے۔ علاوہ ازیں ہاتھ اٹھا کر کی جائے یا ویسے ہی کر لی جائے، دونوں طرح جائز ہے۔ (۴) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوال اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے معلوم ہوا کہ عورت بھی زیارتِ قبر کے لیے جاسکتی ہے۔ واللہ أعلم۔