سنن النسائي - حدیث 2038

كِتَابُ الْجَنَائِزِ النَّهْيُ عَنْ الِاسْتِغْفَارِ لِلْمُشْرِكِينَ حسن أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَقَ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا يَسْتَغْفِرُ لِأَبَوَيْهِ وَهُمَا مُشْرِكَانِ، فَقُلْتُ: أَتَسْتَغْفِرُ لَهُمَا وَهُمَا مُشْرِكَانِ؟ فَقَالَ: أَوَ لَمْ يَسْتَغْفِرْ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ؟ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَنَزَلَتْ: {وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ} [التوبة: 114]

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2038

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل مشرکین کے لیے استغفارکی ممانعت حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو سنا جو اپنے مشرک والدین کے لیے استغفار کر رہا تھا تو میں نے کہا: کیا تو ان کے لیے استغفار کرتا ہے، حالانکہ وہ مشرک تھے؟ اس نے کہا: کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد کے لیے استغفار نہیں کی تھی؟ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور یہ بات آپ سے ذکر کی تو یہ آیت اتری: (وما کان استغفار ابراھیم لابیہ الا عن موعدۃ و عدھا ایاہ) ’’ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے والد کے لیے استغفار کرنا اس وعدے کی بنا پر تھا جو انھوں نے اس سے کیا تھا۔‘‘
تشریح : (۱) محقق کتاب نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اس حدیث کے بعض حصے کے شواہد مستدرک حاکم وغیرہ میں ہیں جنھیں امام حاکم نے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے موافقت کی ہے لیکن محقق کتاب نے ان شواہد پر خود کوئی حکم نہیں لگایا جبکہ دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو غالباً انھی شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے اور دلائل کی رو سے انھی کی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحیح سنن النسائي للألباني: ۶۸/۲، رقم: ۲۰۳۵، وذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۵۴،۴۳/۲۰) (۲) حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب پتا چل گیا کہ میرا والد کفر ہی پر فوت ہوا ہے تو انھوں نے اس کے لیے استغفار ترک فرما دیا۔ زندگی میں تو مشرک کے لیے مغفرت اور ہدایت کی دعا کی جا سکتی ہے، مگر شرک پر مرجانے کے بعد نہیں۔ (۱) محقق کتاب نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اس حدیث کے بعض حصے کے شواہد مستدرک حاکم وغیرہ میں ہیں جنھیں امام حاکم نے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے موافقت کی ہے لیکن محقق کتاب نے ان شواہد پر خود کوئی حکم نہیں لگایا جبکہ دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو غالباً انھی شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے اور دلائل کی رو سے انھی کی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحیح سنن النسائي للألباني: ۶۸/۲، رقم: ۲۰۳۵، وذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۵۴،۴۳/۲۰) (۲) حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب پتا چل گیا کہ میرا والد کفر ہی پر فوت ہوا ہے تو انھوں نے اس کے لیے استغفار ترک فرما دیا۔ زندگی میں تو مشرک کے لیے مغفرت اور ہدایت کی دعا کی جا سکتی ہے، مگر شرک پر مرجانے کے بعد نہیں۔