سنن النسائي - حدیث 2004

كِتَابُ الْجَنَائِزِ مُوَارَاةُ الشَّهِيدِ فِي دَمِهِ صحيح - أَخْبَرَنَا هَنَّادٌ، عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِقَتْلَى أُحُدٍ: «زَمِّلُوهُمْ بِدِمَائِهِمْ، فَإِنَّهُ لَيْسَ كَلْمٌ يُكْلَمُ فِي اللَّهِ إِلَّا يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَدْمَى، لَوْنُهُ لَوْنُ الدَّمِ، وَرِيحُهُ رِيحُ الْمِسْكِ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2004

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل شہید کو خون سمیت (بغیر غسل دیے اور کپڑے اتارے)دفن کیا جائے حضرت عبداللہ بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد کے شہداء کے بارے میں فرمایا تھا: ’’انھیں ان کے خون آلود جسموں اور کپڑوں سمیت کفن دو کیونکہ جو زخم بھی اللہ تعالیٰ کے راستے میں لگا ہو، قیامت کے دن اس کی یہ حالت ہوگی کہ رنگ تو خون جیسا ہی ہوگا مگر خوشبو کستوری جیسی ہوگی۔‘‘
تشریح : (۱) یہ بات متفق علیہ ہے کہ شہید کو غسل نہیں دیا جائے گا بلکہ اسی خون آلود حالت میں مناسب کپڑے میں کفن دے کر دفن کر دیا جائے گا تاکہ اس پر مظلومیت کے نشان باقی رہیں، نیز قیامت کے دن اس کا امتیاز قائم رہے اور سب حاضرین کے سامنے اس کی فضیلت ظاہر ہو کیونکہ قیامت کے دن ہر میت کو اس حال میں اٹھایا جائے گا جس پر وہ فوت اور دفن ہوا، البتہ احناف نے اس کے لیے چند شرطیں لگائی ہیں، مثلاً: اس نے زخمی ہونے کے بعد نہ کچھ کھایا پیا ہو، نہ سایہ حاصل کیا ہو، نہ اس کا علاج کیا گیا ہو حتی کہ نہ اس نے وصیت کی ہو مگر یہ تمام شرطیں بلا دلیل بلکہ باطل ہیں بلکہ شہادت کے ساتھ مذاق اور شہید پر ظلم ہے۔ گویا اسے دھوپ میں پیاسا رکھ کر تڑپا تڑپا کر مارا جائے یا مرنے دیا جائے۔ لطف تو یہ ہے کہ اسے بات کرنے کی بھی اجازت نہ دی جائے۔ استغفراللہ۔ (۲) شہید کے جنازے کے بارے میں اختلاف ہے اور یہ بحث تفصیل کے ساتھ احادیث: ۱۹۵۵ تا ۱۹۵۷ میں گزر چکی ہے۔ (۱) یہ بات متفق علیہ ہے کہ شہید کو غسل نہیں دیا جائے گا بلکہ اسی خون آلود حالت میں مناسب کپڑے میں کفن دے کر دفن کر دیا جائے گا تاکہ اس پر مظلومیت کے نشان باقی رہیں، نیز قیامت کے دن اس کا امتیاز قائم رہے اور سب حاضرین کے سامنے اس کی فضیلت ظاہر ہو کیونکہ قیامت کے دن ہر میت کو اس حال میں اٹھایا جائے گا جس پر وہ فوت اور دفن ہوا، البتہ احناف نے اس کے لیے چند شرطیں لگائی ہیں، مثلاً: اس نے زخمی ہونے کے بعد نہ کچھ کھایا پیا ہو، نہ سایہ حاصل کیا ہو، نہ اس کا علاج کیا گیا ہو حتی کہ نہ اس نے وصیت کی ہو مگر یہ تمام شرطیں بلا دلیل بلکہ باطل ہیں بلکہ شہادت کے ساتھ مذاق اور شہید پر ظلم ہے۔ گویا اسے دھوپ میں پیاسا رکھ کر تڑپا تڑپا کر مارا جائے یا مرنے دیا جائے۔ لطف تو یہ ہے کہ اسے بات کرنے کی بھی اجازت نہ دی جائے۔ استغفراللہ۔ (۲) شہید کے جنازے کے بارے میں اختلاف ہے اور یہ بحث تفصیل کے ساتھ احادیث: ۱۹۵۵ تا ۱۹۵۷ میں گزر چکی ہے۔