سنن النسائي - حدیث 1987

كِتَابُ الْجَنَائِزِ الدُّعَاءُ صحيح أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ مَيْمُونٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رُبَيِّعَةَ السُّلَمِيِّ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ خَالِدٍ السُّلَمِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، فَقُتِلَ أَحَدُهُمَا وَمَاتَ الْآخَرُ بَعْدَهُ، فَصَلَّيْنَا عَلَيْهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا قُلْتُمْ؟» قَالُوا: دَعَوْنَا لَهُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ، اللَّهُمَّ أَلْحِقْهُ بِصَاحِبِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَأَيْنَ صَلَاتُهُ بَعْدَ صَلَاتِهِ؟ وَأَيْنَ عَمَلُهُ بَعْدَ عَمَلِهِ؟ فَلَمَا بَيْنَهُمَا كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ» قَالَ عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ: أَعْجَبَنِي لِأَنَّهُ أَسْنَدَ لِي

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1987

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل جنازے کی دعائیں حضرت عبداللہ بن ربیعہ سلمی رضی اللہ عنہ جو کہ صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، نے حضرت عبید بن خالد سلمی رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کو آپس میں بھائی بنا دیا۔ ان میں سے ایک شہید ہوگیا اور دوسرا اس کے کچھ بعد فوت ہوا۔ ہم نے اس کا جنازہ پڑھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم نے (جنازے میں) اس کے لیے کیا دعا کی؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا: ہم نے اس کے لیے یہ دعا کی: [اللھم! اغفرلہ ……… الحقہ بصاحبہ] ’’اے اللہ! اسے معاف فرما۔ اس پر رحم فرما اور اسے اس کے ساتھی (بھائی) کے ساتھ ملا دے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو اس کے بعد اس کی نمازیں اور دوسرے نیک اعمال کدھر گئے؟ اللہ کی قسم! ان کے درمیان تو زمین و آسمان کے مابین جیسا فاصلہ ہے۔‘‘ عمرو بن میمون نے کہا: یہ روایت مجھے بہت اچھی لگی کیونکہ انھوں (استاد محترم) نے یہ روایت (بغیر واسطہ گرائے) مجھے بیان کی۔
تشریح : (۱)اس روایت میں حضرت عمرو بن میمون کے استاد صحابی ہیں۔ اوروہ ایک دوسرے صحابی سے بیان کر رہے ہیں۔ ایک صحابی اگر دوسرے صحابی کا واسطہ ذکر نہ بھی کرے تو روایت کی اسنادی حیثیت کمزور نہیں ہوتی، البتہ واسطے کا ذکر بہتر ہے، اسی لیے حضرت عمرو بن میمون نے اس روایت پر اپنی خوشی کا اظہار فرمایا۔ (۲) گویا جنازے میں مطلق مغفرت اور رفع درجات کی دعا کی جائے۔ کسی شخصیت کا حوالہ یا اس کی طرف نسبت مناسب نہیں کیونکہ ہر شخص کا حقیقی مرتبہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، البتہ صفات کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ جیسے ’’اے اللہ! اس کو شہداء و صالحین کے ساتھ ملا دے۔‘‘ وغیرہ۔ (۳) اعمال صالحہ والی لمبی زندگی مسلمان آدمی کے لیے غنیمت ہے۔ (۴) خشوع و خضوع، اخلاص اور تقویٰ کی زیادتی کی بنا پر بسا اوقات آدمی بستر پر فوت ہوکر بھی شہید کے برابر یا اس سے بلند درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ (۱)اس روایت میں حضرت عمرو بن میمون کے استاد صحابی ہیں۔ اوروہ ایک دوسرے صحابی سے بیان کر رہے ہیں۔ ایک صحابی اگر دوسرے صحابی کا واسطہ ذکر نہ بھی کرے تو روایت کی اسنادی حیثیت کمزور نہیں ہوتی، البتہ واسطے کا ذکر بہتر ہے، اسی لیے حضرت عمرو بن میمون نے اس روایت پر اپنی خوشی کا اظہار فرمایا۔ (۲) گویا جنازے میں مطلق مغفرت اور رفع درجات کی دعا کی جائے۔ کسی شخصیت کا حوالہ یا اس کی طرف نسبت مناسب نہیں کیونکہ ہر شخص کا حقیقی مرتبہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، البتہ صفات کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ جیسے ’’اے اللہ! اس کو شہداء و صالحین کے ساتھ ملا دے۔‘‘ وغیرہ۔ (۳) اعمال صالحہ والی لمبی زندگی مسلمان آدمی کے لیے غنیمت ہے۔ (۴) خشوع و خضوع، اخلاص اور تقویٰ کی زیادتی کی بنا پر بسا اوقات آدمی بستر پر فوت ہوکر بھی شہید کے برابر یا اس سے بلند درجہ حاصل کر لیتا ہے۔