سنن النسائي - حدیث 1985

كِتَابُ الْجَنَائِزِ الدُّعَاءُ صحيح أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ، وَاعْفُ عَنْهُ وَعَافِهِ، وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ، وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ، وَاغْسِلْهُ بِمَاءٍ وَثَلْجٍ وَبَرَدٍ، وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ، وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ، وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ، وَقِهِ عَذَابَ الْقَبْرِ، وَعَذَابَ النَّارِ»، قَالَ عَوْفٌ: فَتَمَنَّيْتُ أَنْ لَوْ كُنْتُ الْمَيِّتَ لِدُعَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِذَلِكَ الْمَيِّتِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1985

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل جنازے کی دعائیں حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک میت کا جنازہ پڑھتے ہوئے یہ کہتے سنا: [اللھم! اغفرلہ و ارحمہ……… وقہ عذاب القبر و عذاب النار] ’’اے اللہ! اس کے گناہ بخش دے اور اس پر رحم فرما۔ اس سے درگزر فرما اور اسے خیریت سے رکھ۔ اس کی اچھی مہمان نوازی فرما اور اس کا ٹھکانا وسیع فرما۔ اور اسے پانی، برف اور اولوں کے ساتھ دھو دے اور اسے غلطیوں سے اس طرح صاف فرما دے جس طرح سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اور اسے اس کے (دنیوی) گھر سے بہتر گھر عطا فرما۔ اور اس کے (دنیوی) گھر والوں سے بہتر گھر والے عطا فرما۔ اور اس کے جوڑے سے بہتر جوڑا عطا فرما۔ اور اسے قبر کے عذاب اور آگ کے عذاب سے بچا۔‘‘ حضرت عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس میت کے لیے یہ (جامع) دعائیں سن کر مجھے خواہش ہوئی کہ کاش میں یہ میت ہوتا۔
تشریح : (۱) ’’سنا‘‘ معلوم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ بلند آواز سے پڑھ رہے تھے، لہٰذا جنازے میں جہر جائز ہے۔ ظاہر یہی ہے کہ مکمل جنازہ جہراً تھا، مگر کہا جا سکتا ہے کہ اس حدیث سے صرف دعا کا جہر ثابت ہوتا ہے، البتہ یہ بات بعید معلوم ہوتی ہے کہ قراءت آہستہ ہو مگر دعا جہر کے ساتھ، جبکہ نماز میں تو دعا آہستہ ہونے کے باوجود بعض صورتوں میں قراءت جہراً ہوتی ہے، نیز درود بھی تو دعا ہی ہے، لہٰذا دعا کا جہر قراءت اور درود کے جہر کو بھی مستلزم ہے۔ (۲) ’’سفید کپڑا‘‘ کیونکہ سفید کپڑا اچھی طرح صاف کیا جاتا ہے ورنہ اس پر داغ دھبے نمایاں ہوں گے۔ اس تمثیل سے مراد معافی میں مبالغہ ہے۔ (۳) ’’جوڑے‘‘ یہ معنی اس لیے کیا گیا ہے کہ مرد اور عورت دونوں کے لیے استعمال ہوسکے۔ مرد کے لیے بیوی جوڑا ہے اور عورت کے لیے خاوند۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ عورت کے جنازے میں یہ لفظ: [وزوجا خیرا من زوجھا] نہ کہا جائے کیونکہ ہوسکتا ہے، اس کا دنیوی خاوند ہی آخرت میں بھی اس کا خاوند ہو اور خاوند ایک سے زائد نہیں ہوسکتے جبکہ بیویاں ایک سے زائد ہوں گی مگر یہ غیر ضروری تکلف ہے کیونکہ جنتی خاوند، خواہ سابقہ ہی ہو، دنیوی خاوند سے رتبے اور درجے میں بہرصورت بہتر ہوگا ورنہ دنیوی بیوی بھی جنت میں بیوی نہ بن سکے گی۔ جبکہ احادیث میں نیک دنیوی بیوی کے آخرت میں اسی شخص کی بیوی ہونے کی صراحت ہے۔ (۴) جمہور اہل علم کے نزدیک پہلی تکبیر کے بعد ثنا، سورۂ فاتحہ اور قراءت، دوسری کے بعد درود، تیسری کے بعد دعا اور چوتھی کے بعد سلام ہوگا۔ پہلی تکبیر کے بعد ثنا پڑھنے کے متعلق اس کتاب کا ابتدائیہ ملاحظہ فرما لیا جائے۔ (۵) بعض اہل علم عید کی زائد تکبیرات کی طرح جنازے کی چاروں تکبیروں کو بھی شروع میں اکٹھا کہنے کے قائل ہیں، یعنی چاروں تکبیرات کہنے کے بعد مسلسل ثنا، سورۂ فاتحہ، قراءت، درود اور دعا و سلام ہوں گے مگر اس طریقے سے نماز جنازہ نماز عید کے مشابہ ہو جائے گی اور نماز جنازہ کا امتیاز ختم ہو جائے گا، لہٰذا پہلا طریقہ ہی راجح معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔ (۱) ’’سنا‘‘ معلوم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ بلند آواز سے پڑھ رہے تھے، لہٰذا جنازے میں جہر جائز ہے۔ ظاہر یہی ہے کہ مکمل جنازہ جہراً تھا، مگر کہا جا سکتا ہے کہ اس حدیث سے صرف دعا کا جہر ثابت ہوتا ہے، البتہ یہ بات بعید معلوم ہوتی ہے کہ قراءت آہستہ ہو مگر دعا جہر کے ساتھ، جبکہ نماز میں تو دعا آہستہ ہونے کے باوجود بعض صورتوں میں قراءت جہراً ہوتی ہے، نیز درود بھی تو دعا ہی ہے، لہٰذا دعا کا جہر قراءت اور درود کے جہر کو بھی مستلزم ہے۔ (۲) ’’سفید کپڑا‘‘ کیونکہ سفید کپڑا اچھی طرح صاف کیا جاتا ہے ورنہ اس پر داغ دھبے نمایاں ہوں گے۔ اس تمثیل سے مراد معافی میں مبالغہ ہے۔ (۳) ’’جوڑے‘‘ یہ معنی اس لیے کیا گیا ہے کہ مرد اور عورت دونوں کے لیے استعمال ہوسکے۔ مرد کے لیے بیوی جوڑا ہے اور عورت کے لیے خاوند۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ عورت کے جنازے میں یہ لفظ: [وزوجا خیرا من زوجھا] نہ کہا جائے کیونکہ ہوسکتا ہے، اس کا دنیوی خاوند ہی آخرت میں بھی اس کا خاوند ہو اور خاوند ایک سے زائد نہیں ہوسکتے جبکہ بیویاں ایک سے زائد ہوں گی مگر یہ غیر ضروری تکلف ہے کیونکہ جنتی خاوند، خواہ سابقہ ہی ہو، دنیوی خاوند سے رتبے اور درجے میں بہرصورت بہتر ہوگا ورنہ دنیوی بیوی بھی جنت میں بیوی نہ بن سکے گی۔ جبکہ احادیث میں نیک دنیوی بیوی کے آخرت میں اسی شخص کی بیوی ہونے کی صراحت ہے۔ (۴) جمہور اہل علم کے نزدیک پہلی تکبیر کے بعد ثنا، سورۂ فاتحہ اور قراءت، دوسری کے بعد درود، تیسری کے بعد دعا اور چوتھی کے بعد سلام ہوگا۔ پہلی تکبیر کے بعد ثنا پڑھنے کے متعلق اس کتاب کا ابتدائیہ ملاحظہ فرما لیا جائے۔ (۵) بعض اہل علم عید کی زائد تکبیرات کی طرح جنازے کی چاروں تکبیروں کو بھی شروع میں اکٹھا کہنے کے قائل ہیں، یعنی چاروں تکبیرات کہنے کے بعد مسلسل ثنا، سورۂ فاتحہ، قراءت، درود اور دعا و سلام ہوں گے مگر اس طریقے سے نماز جنازہ نماز عید کے مشابہ ہو جائے گی اور نماز جنازہ کا امتیاز ختم ہو جائے گا، لہٰذا پہلا طریقہ ہی راجح معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔