سنن النسائي - حدیث 197

ذِكْرُ مَا يُوجِبُ الْغُسْلَ وَمَا لَا يُوجِبُهُ غُسْلُ الْمَرْأَةِ تَرَى فِي مَنَامِهَا مَا يَرَى الرَّجُلُ صحيح أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ يُوسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ هِشَامٍ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي مِنْ الْحَقِّ هَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ غُسْلٌ إِذَا هِيَ احْتَلَمَتْ قَالَ نَعَمْ إِذَا رَأَتْ الْمَاءَ فَضَحِكَتْ أُمُّ سَلَمَةَ فَقَالَتْ أَتَحْتَلِمُ الْمَرْأَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفِيمَ يُشْبِهُهَا الْوَلَدُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 197

کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟ عورت خواب میں وہی کچھ دیکھے جو مرد دیکھتا ہے تو اس پر غسل واجب ہے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ ایک عورت نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتا، کیا عورت پر غسل واجب ہے جب اسے احتلام ہو جائے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، جب وہ پانی (منی) دیکھے۔‘‘ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ہنسنے لگیں اور کہنے لگیں: کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو کس وجہ سے بچہ عورت کےمشابہ ہوتا ہے؟‘‘
تشریح : (۱) ان روایات میں امام زہری اور ہشام بن عروہ کے مابین اختلاف ہے کہ یہ مکالمہ حضرت عائشہ کا ہے یا ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا؟ امام ابوداود رحمہ اللہ کے نزدیک زہری کی روایت راجح ہے، یعنی یہ مکالمہ حضرت عائشہ اور ام سلیم رضی اللہ عنہا کے مابین ہوا انھوں نے اس کے شواہد بھی ذکر کیے ہیں۔ مگر قاضی عیاض کی تحقیق کے مطابق یہ مکالمہ ام سلمہ اور ام سلیم رضی اللہ عنہا کے درمیان ہوا، اس طرح ہشام بن عروہ کی روایت راجح ہوگی اور امام بخاری رحمہ اللہ کا میلان بھی اسی طرف ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، العلم، حدیث: ۱۳۰) تاہم علامہ نووی رحمہ اللہ نے دونوں روایتوں کے مابین یوں تطبیق دی ہے کہ عین ممکن ہے کہ ام سلمہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا دونوں ہی اس موقع پر موجود ہوں اور دونوں نے تعجب کا اظہار کیا ہو۔ واللہ أعلم۔ (شرح مسلم للنووي: ۲۸۶/۳، تحت حدیث: ۳۳۱، وعون المعبود: ۴۰۳/۱، ۴۰۴ تحت حدیث: ۲۳۷) (۲) ام سلیمم کا یہ جملہ جو انھوں نے اپنے سوال سے پہلے کہا کہ ’’اللہ تعالیٰ حق سے نہیں شرماتا۔‘‘ ان کے کمال حسن ادب پر دلیل ہے، یعنی جو بات عرفاً زبان پر نہیں لائی جاتی اور مجھے اس کی شرعاً ضرورت ہے، وہ بتائی جائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ انصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں کہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے میں حیا انھیں آڑے نہیں آتی۔ (صحیح البخاري، قبل حدیث: ۱۳۰) (۱) ان روایات میں امام زہری اور ہشام بن عروہ کے مابین اختلاف ہے کہ یہ مکالمہ حضرت عائشہ کا ہے یا ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا؟ امام ابوداود رحمہ اللہ کے نزدیک زہری کی روایت راجح ہے، یعنی یہ مکالمہ حضرت عائشہ اور ام سلیم رضی اللہ عنہا کے مابین ہوا انھوں نے اس کے شواہد بھی ذکر کیے ہیں۔ مگر قاضی عیاض کی تحقیق کے مطابق یہ مکالمہ ام سلمہ اور ام سلیم رضی اللہ عنہا کے درمیان ہوا، اس طرح ہشام بن عروہ کی روایت راجح ہوگی اور امام بخاری رحمہ اللہ کا میلان بھی اسی طرف ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، العلم، حدیث: ۱۳۰) تاہم علامہ نووی رحمہ اللہ نے دونوں روایتوں کے مابین یوں تطبیق دی ہے کہ عین ممکن ہے کہ ام سلمہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا دونوں ہی اس موقع پر موجود ہوں اور دونوں نے تعجب کا اظہار کیا ہو۔ واللہ أعلم۔ (شرح مسلم للنووي: ۲۸۶/۳، تحت حدیث: ۳۳۱، وعون المعبود: ۴۰۳/۱، ۴۰۴ تحت حدیث: ۲۳۷) (۲) ام سلیمم کا یہ جملہ جو انھوں نے اپنے سوال سے پہلے کہا کہ ’’اللہ تعالیٰ حق سے نہیں شرماتا۔‘‘ ان کے کمال حسن ادب پر دلیل ہے، یعنی جو بات عرفاً زبان پر نہیں لائی جاتی اور مجھے اس کی شرعاً ضرورت ہے، وہ بتائی جائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ انصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں کہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے میں حیا انھیں آڑے نہیں آتی۔ (صحیح البخاري، قبل حدیث: ۱۳۰)