سنن النسائي - حدیث 1969

كِتَابُ الْجَنَائِزِ الصَّلَاةُ عَلَى الْجَنَازَةِ فِي الْمَسْجِدِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ حَمْزَةَ عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سُهَيْلِ ابْنِ بَيْضَاءَ إِلَّا فِي الْمَسْجِدِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1969

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سہیل ابن بیضاء رضی اللہ عنہ کا جنازہ مسجد ہی میں پڑھا تھا۔
تشریح : (۱) ’’سہیل ابن بیضاء‘‘ بیضاء ان کی والدہ کا نام تھا۔ یہ تین بھائی تھے۔ سہل، سہل اور صفوان۔ سہیل رضی اللہ عنہ ۹ ھ میں فوت ہوئے۔ (۲) ’’مسجد میں پڑھا‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تو مسجد سے باہر پڑھنے کا تھا مگر مسجد میں پڑھنا بھی ثابت ہے۔ بعد میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے جنازے بھی مسجد نبوی ہی میں پڑھے گئے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا جنازہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حکماً مسجد میں پڑھوایا، لہٰذا ضرورت پڑے تو مسجد میں جنازہ پڑھا جا سکتا ہے۔ چونکہ دفن باہر کیا جاتا ہے، لہٰذا عموماً جنازہ باہر ہی پڑھا جاتا ہے۔ یہ وجہ نہیں کہ مسجد میں کراہت ہے، بلکہ ضرورت نہیں۔ ضرورت ہو تو مسجد میں بلا کراہت درست ہے۔ احناف سرے سے مسجد می جنازہ درست ہی نہیں سمجھتے کہ ابوداود کی ایک روایت ہے: ’’جس نے مسجد میں جنازہ پڑھا فلا شیی لہ ’’اس ثواب نہیں ملے گا۔‘‘ بعض نسخوں میں [فلا شیی علیہ] (سنن أبی داود، الحنائز، حدیث: ۳۱۹) غرض اس میں کوئی حرج نہیں‘‘ کے الفاظ بھی ہیں۔ لیکن پہلے الفاظ ہی درست ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ خاص اجر نہیں ملے گا جیسا کہ علامہ سندھی حنفی رحمہ اللہ نے تطبیق دی ہے صرف نماز جنازہ کا اجر ملے گا، مطلق اجر کی نفی اس لیے نہیں کی جا سکتی کہ صحیح حدیث سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمز جنازہ مسجد میں پڑھنا ثابت ہے، اس لیے مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کو ناجائز نہیں کہا جا سکتا، البتہ مسجد سے باہر پڑھنا افضل قرار پائے گا۔ (فوائد سنن ابی داود، حدیث: ۳۱۹۱) ایسی محتمل روایت کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے صریح اور متفقہ فعل کی نفی کی جا رہی ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ حتی الامکان ہر حدیث پر عمل ہو جائے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (اللہ الصحیحۃ: ۳۶۵/۵) (۱) ’’سہیل ابن بیضاء‘‘ بیضاء ان کی والدہ کا نام تھا۔ یہ تین بھائی تھے۔ سہل، سہل اور صفوان۔ سہیل رضی اللہ عنہ ۹ ھ میں فوت ہوئے۔ (۲) ’’مسجد میں پڑھا‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تو مسجد سے باہر پڑھنے کا تھا مگر مسجد میں پڑھنا بھی ثابت ہے۔ بعد میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے جنازے بھی مسجد نبوی ہی میں پڑھے گئے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا جنازہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حکماً مسجد میں پڑھوایا، لہٰذا ضرورت پڑے تو مسجد میں جنازہ پڑھا جا سکتا ہے۔ چونکہ دفن باہر کیا جاتا ہے، لہٰذا عموماً جنازہ باہر ہی پڑھا جاتا ہے۔ یہ وجہ نہیں کہ مسجد میں کراہت ہے، بلکہ ضرورت نہیں۔ ضرورت ہو تو مسجد میں بلا کراہت درست ہے۔ احناف سرے سے مسجد می جنازہ درست ہی نہیں سمجھتے کہ ابوداود کی ایک روایت ہے: ’’جس نے مسجد میں جنازہ پڑھا فلا شیی لہ ’’اس ثواب نہیں ملے گا۔‘‘ بعض نسخوں میں [فلا شیی علیہ] (سنن أبی داود، الحنائز، حدیث: ۳۱۹) غرض اس میں کوئی حرج نہیں‘‘ کے الفاظ بھی ہیں۔ لیکن پہلے الفاظ ہی درست ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ خاص اجر نہیں ملے گا جیسا کہ علامہ سندھی حنفی رحمہ اللہ نے تطبیق دی ہے صرف نماز جنازہ کا اجر ملے گا، مطلق اجر کی نفی اس لیے نہیں کی جا سکتی کہ صحیح حدیث سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمز جنازہ مسجد میں پڑھنا ثابت ہے، اس لیے مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کو ناجائز نہیں کہا جا سکتا، البتہ مسجد سے باہر پڑھنا افضل قرار پائے گا۔ (فوائد سنن ابی داود، حدیث: ۳۱۹۱) ایسی محتمل روایت کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے صریح اور متفقہ فعل کی نفی کی جا رہی ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ حتی الامکان ہر حدیث پر عمل ہو جائے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (اللہ الصحیحۃ: ۳۶۵/۵)