كِتَابُ الْجَنَائِزِ الصَّلَاةُ عَلَى الْمُنَافِقِينَ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ لَمَّا مَاتَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ دُعِيَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَبْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ تُصَلِّي عَلَى ابْنِ أُبَيٍّ وَقَدْ قَالَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا أُعَدِّدُ عَلَيْهِ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ أَخِّرْ عَنِّي يَا عُمَرُ فَلَمَّا أَكْثَرْتُ عَلَيْهِ قَالَ إِنِّي قَدْ خُيِّرْتُ فَاخْتَرْتُ فَلَوْ عَلِمْتُ أَنِّي لَوْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِينَ غُفِرَ لَهُ لَزِدْتُ عَلَيْهَا فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ انْصَرَفَ فَلَمْ يَمْكُثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى نَزَلَتْ الْآيَتَانِ مِنْ بَرَاءَةَ وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ فَعَجِبْتُ بَعْدُ مِنْ جُرْأَتِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ
کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
منافقین کاجنازہ؟
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافق) مر گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا جنازہ پڑھنے کے لیے بلایا گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (جنازہ پڑھنے کے لیے) کھڑے ہوگئے، میں جلدی سے آپ کے سامنے جا کھڑا ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ ابن ابی کا جنازہ پڑھتے ہیں، حالانکہ اس نے فلاں فلاں دن ایسی ایسی باتیں کیں؟ میں (اس کی شرارتیں) شمار کرنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے، آخر فرمایا: ’’عمر! ایک طرف ہٹ جاؤ۔‘‘ جب میں نے اپنی بات پر اصرار کیا تو آپ نے فرمایا: ’’مجھے اختیار دیا گیا ہے (کہ استغفار کرو یا نہ کرو، اللہ مغفرت نہ کرے گا) تو میں نے استغفار کو اختیار کیا ہے۔ اگر مجھے علم ہوتا کہ میں ستر دفعہ سے زائد استغفار کروں تو اسے معافی ہو جائے گی تو میں یقیناً ستر دفعہ سے زائد بھی استغفار کر دیا۔‘‘ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ پڑھ دیا، پھر واپس تشریف لے گئے۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ سورۂ براءت کی دو آیتیں اتریں: (ولا تصل علی احد………الأیۃ) ’’اے نبی! ان منافقوں میں سے کئوی مر جائے تو ہرگز اس کا جنازہ نہ پڑھیں اور نہ ان کی قبر پر (دعائے مغفرت کے لیے) جائیں کیونکہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا اور پھر اسی انکار و فسق کی حالت میں فوت ہوئے۔‘‘ بعد میں مجھے اپنی اس جرأت پر، جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کی، بہت تعجب ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ علم رکھنے والے ہیں۔
تشریح :
(۱)اس حدیث کی تفہیم کے لیے مطالعہ فرمائیں فوائد حدیث: ۱۹۰۱۔ مزید باتیں درج ذیل ہیں۔ (۲) ’’سلول‘‘ اس کی ماں کا نام تھا۔ وہ معروف عورت تھی، اس لیے اس کی طرف بھی منسوب ہوتا تھا۔ (۳) ’’جنازہ نہ پڑھیں‘‘ یہاں منافق سے مراد وہ ہے جو اعتقادی منافق ہو، یعنی جو دل سے ایمان نہ لایا ہو، دل میں کفر ہو۔ صرف زبان سے (دھوکا دینے کے لیے) کلمہ پڑھا ہو۔ اور اس بات کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہوسکتا۔ الا یہ کہ اللہ تعالیٰ وحی نازل فرمائے اور یہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ممکن تھا۔ آج ہم کسی کو منافق (اس معنی میں) نہیں کہہ سکتے۔ علامات نفاق پائے جانے سے کوئی آدمی اعتقادی منافق نہیں بن جاتا، عملی منافق بنتا ہے، یعنی دیکھنے میں منافقوں جیسا، حقیقت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، لہٰذا اب ہر کلمہ گو مسلمان کا جنازہ پڑھ لیا جائے گا۔ علامات نفاق تو کسی حد تک ہر ایک میں پائی جاتی ہیں۔ واللہ أعلم۔ (۴) ’’تعجب ہوا‘‘ درال یہ جرأت بھی انھیں اللہ تعالیٰ ہی نے بخشی تھی ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے طور پر چوں بھی نہ کرتے تھے۔ کئی واقعات اس پر دال ہیں۔ اور اس جرأت میں بھی اللہ تعالیٰ کی بہت سی حکمتیں پوشیدہ تھیں۔
(۱)اس حدیث کی تفہیم کے لیے مطالعہ فرمائیں فوائد حدیث: ۱۹۰۱۔ مزید باتیں درج ذیل ہیں۔ (۲) ’’سلول‘‘ اس کی ماں کا نام تھا۔ وہ معروف عورت تھی، اس لیے اس کی طرف بھی منسوب ہوتا تھا۔ (۳) ’’جنازہ نہ پڑھیں‘‘ یہاں منافق سے مراد وہ ہے جو اعتقادی منافق ہو، یعنی جو دل سے ایمان نہ لایا ہو، دل میں کفر ہو۔ صرف زبان سے (دھوکا دینے کے لیے) کلمہ پڑھا ہو۔ اور اس بات کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہوسکتا۔ الا یہ کہ اللہ تعالیٰ وحی نازل فرمائے اور یہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ممکن تھا۔ آج ہم کسی کو منافق (اس معنی میں) نہیں کہہ سکتے۔ علامات نفاق پائے جانے سے کوئی آدمی اعتقادی منافق نہیں بن جاتا، عملی منافق بنتا ہے، یعنی دیکھنے میں منافقوں جیسا، حقیقت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، لہٰذا اب ہر کلمہ گو مسلمان کا جنازہ پڑھ لیا جائے گا۔ علامات نفاق تو کسی حد تک ہر ایک میں پائی جاتی ہیں۔ واللہ أعلم۔ (۴) ’’تعجب ہوا‘‘ درال یہ جرأت بھی انھیں اللہ تعالیٰ ہی نے بخشی تھی ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے طور پر چوں بھی نہ کرتے تھے۔ کئی واقعات اس پر دال ہیں۔ اور اس جرأت میں بھی اللہ تعالیٰ کی بہت سی حکمتیں پوشیدہ تھیں۔