سنن النسائي - حدیث 1967

كِتَابُ الْجَنَائِزِ تَرْكُ الصَّلَاةِ عَلَى مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سُلَيْمَانَ سَمِعْتُ ذَكْوَانَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ تَرَدَّى مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَهُوَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ يَتَرَدَّى خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا وَمَنْ تَحَسَّى سُمًّا فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَسُمُّهُ فِي يَدِهِ يَتَحَسَّاهُ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيدَةٍ ثُمَّ انْقَطَعَ عَلَيَّ شَيْءٌ خَالِدٌ يَقُولُ كَانَتْ حَدِيدَتُهُ فِي يَدِهِ يَجَأُ بِهَا فِي بَطْنِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1967

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ نہ پڑھنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو پہاڑ (یا کسی اور بلند مقام) سے گر کر خودکشی کرے، وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ (جہنمی پہاڑ) سے گرتا رہے گا۔ اور جس شخص نے زہر پی کر خودکشی کی تو اس کا زہر اس کے ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ اسے پیتا رہے گا۔ اور جو آدمی کسی تیز دھار آلے (تلوار، خنجر، چاقو یا چھری وغیرہ) سے خود کرے تو اس کا وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں اسے اپنے پیٹ میں گھونپتا رہے گا۔‘‘
تشریح : (۱) انسان اپنے جسم و جان کا مالک نہیں ہے، لہٰذا وہ اپنے آپ کو نقصان پہنچائے تو اس نے اللہ تعالیٰ کی چیز کو نقصان پہنچایا۔ اپنے آپ کو قتل کرنا دوسروں کو قتل کرنے کی طرح جرم ہے، لہٰذا خودکشی حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ پر راضی رہنا چاہیے۔ (۲) ’’ہمیشہ ہمیشہ‘‘ یعنی جب تک اپنے جرم کی سزا میں جہنم میں رہے گا، خودکشی والا فعل کرتا رہے گا، اذیت ہوگی، مگر مرے گا نہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا کیونکہ خودکشی کفر نہیں۔ ہر مومن اپنے گناہوں کی معافی حاصل کرکے (الہ کے فضل سے یا کچھ سزا بھگت کر) آخر جنت میں ضرور جائے گا۔ اگر ظاہر الفاظ مراد ہوں تو اس روایت کو تغلیظ و مبالغہ پر محمول کیا جائے گا یا یہ سزا صرف اس جرم کی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اس کا کلمہ طیبہ پڑھنا جنت کو واجب کرتا ہے، لہٰذا جب نیکیاں اور گناہ ملائے جائیں گے تو انفرادی جزا و سزا کا اعتبار نہ ہوگا بلکہ مجموعی طور پر جو پلڑا بھاری ہوا، اس کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ واللہ أعلم۔ (۱) انسان اپنے جسم و جان کا مالک نہیں ہے، لہٰذا وہ اپنے آپ کو نقصان پہنچائے تو اس نے اللہ تعالیٰ کی چیز کو نقصان پہنچایا۔ اپنے آپ کو قتل کرنا دوسروں کو قتل کرنے کی طرح جرم ہے، لہٰذا خودکشی حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ پر راضی رہنا چاہیے۔ (۲) ’’ہمیشہ ہمیشہ‘‘ یعنی جب تک اپنے جرم کی سزا میں جہنم میں رہے گا، خودکشی والا فعل کرتا رہے گا، اذیت ہوگی، مگر مرے گا نہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا کیونکہ خودکشی کفر نہیں۔ ہر مومن اپنے گناہوں کی معافی حاصل کرکے (الہ کے فضل سے یا کچھ سزا بھگت کر) آخر جنت میں ضرور جائے گا۔ اگر ظاہر الفاظ مراد ہوں تو اس روایت کو تغلیظ و مبالغہ پر محمول کیا جائے گا یا یہ سزا صرف اس جرم کی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اس کا کلمہ طیبہ پڑھنا جنت کو واجب کرتا ہے، لہٰذا جب نیکیاں اور گناہ ملائے جائیں گے تو انفرادی جزا و سزا کا اعتبار نہ ہوگا بلکہ مجموعی طور پر جو پلڑا بھاری ہوا، اس کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ واللہ أعلم۔