سنن النسائي - حدیث 1962

كِتَابُ الْجَنَائِزِ الصَّلَاةُ عَلَى مَنْ عَلَيْهِ دَيْنٌ صحيح أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي قَتَادَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِرَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ فَإِنَّ عَلَيْهِ دَيْنًا قَالَ أَبُو قَتَادَةَ هُوَ عَلَيَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْوَفَاءِ قَالَ بِالْوَفَاءِ فَصَلَّى عَلَيْهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1962

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل مقروض شخص کا جنازہ؟ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک انصاری شخص کی میت جنازے کے لیے لائی گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھ لو (میں نہیں پڑھوں گا) اس پر تو قرض ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا: وہ قرض میرے ذمے رہا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو یہ ذمے داری پوری بھی کرے گا؟‘‘ میں نے کہا: ضرور پوری کروں گا تو آپ نے اس کا جنازہ پڑھ دیا۔
تشریح : (۱) پہلے پہل آپ کا معمول یہی تھا کہ مقروض میت جو ادائیگی کے لیے مال نہ چھوڑ کر فوت ہوتا، اس کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے، البتہ کوئی شخص سچے دل سے قرض ادا کرنا چاہتا تھا مگر ادا نہ کرسکا تو ایسا مجبور شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک گناہ گار نہیں۔ بعد میں بیت المال میں وسعت ہوگئی تو آپ جنازہ پڑھ لیتے تھے اور ادائیگی بیت المال سے فرما دیتے تھے۔ جس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے: [فمن توفي من المومنین فترک دینا فعلي قضاوہ، ومن ترک مالا فلورئتہ] (صحیح البخاري، الکفالۃ، حدیث: ۲۳۹۸، و صحیح مسلم، الفرائض، حدیث: ۱۶۱۹) بہرحال ہر گناہ گار میت کا جنازہ ضرور ہونا چاہیے۔ (۲) میت کے ذمے اگر قرض وغریہ ہوتو کوئی شخص اسے اپنے ذمے لے سکتا ہے، اور اس کی ذمہ داری قبول کی جا سکتی ہے، یہ ناجائز نہیں جیسے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ (۱) پہلے پہل آپ کا معمول یہی تھا کہ مقروض میت جو ادائیگی کے لیے مال نہ چھوڑ کر فوت ہوتا، اس کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے، البتہ کوئی شخص سچے دل سے قرض ادا کرنا چاہتا تھا مگر ادا نہ کرسکا تو ایسا مجبور شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک گناہ گار نہیں۔ بعد میں بیت المال میں وسعت ہوگئی تو آپ جنازہ پڑھ لیتے تھے اور ادائیگی بیت المال سے فرما دیتے تھے۔ جس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے: [فمن توفي من المومنین فترک دینا فعلي قضاوہ، ومن ترک مالا فلورئتہ] (صحیح البخاري، الکفالۃ، حدیث: ۲۳۹۸، و صحیح مسلم، الفرائض، حدیث: ۱۶۱۹) بہرحال ہر گناہ گار میت کا جنازہ ضرور ہونا چاہیے۔ (۲) میت کے ذمے اگر قرض وغریہ ہوتو کوئی شخص اسے اپنے ذمے لے سکتا ہے، اور اس کی ذمہ داری قبول کی جا سکتی ہے، یہ ناجائز نہیں جیسے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔