سنن النسائي - حدیث 1960

كِتَابُ الْجَنَائِزِ الصَّلَاةُ عَلَى مَنْ يَحِيفُ فِي وَصِيَّتِهِ صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا هُشَيْمٌ عَنْ مَنْصُورٍ وَهُوَ ابْنُ زَاذَانَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ رَجُلًا أَعْتَقَ سِتَّةً مَمْلُوكِينَ لَهُ عِنْدَ مَوْتِهِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ غَيْرَهُمْ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَغَضِبَ مِنْ ذَلِكَ وَقَالَ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لَا أُصَلِّيَ عَلَيْهِ ثُمَّ دَعَا مَمْلُوكِيهِ فَجَزَّأَهُمْ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ ثُمَّ أَقْرَعَ بَيْنَهُمْ فَأَعْتَقَ اثْنَيْنِ وَأَرَقَّ أَرْبَعَةً

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1960

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل جوآدمی وصیت میں ظلم کر جائے تو اس کا جنازہ؟ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے مرتے وقت اپنے چھ غلام آزاد کر دیے۔ ان کے علاوہ اس کے پاس کوئی مال نہ تھا۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ اس پر بہت ناراض ہوئے اور فرمایا: ’’میرا ارادہ ہوا کہ میں اس کا جنازہ نہ پڑھوں۔‘‘ پھر آپ نے اس کے غلام بلائے، ان کے تین حصے کیے، پھر ان میں قرعہ ڈالا۔ دو کو آزاد فرمایا اور چار کو غلام رکھا۔
تشریح : (۱) اس قسم کے شخص کا جنازہ تو پڑھا جائے گا مگر اس کی وصیت کو شریعت کے مطابق درست کر دیا جائے گا۔ (۲) موت کے قریب کوئی شخص تہائی مال سے زائد میں تصرف کا اختیار نہیں رکھتا، یعنی وہ ایک تہائی مال سے زیادہ وصیت نہیں کرسکتا۔ (۲) ’’اس نبوی فیصلے کے برعکس، احناف کا خیال ہے کہ ’’سب غلام آزاد ہوں گے۔ ہر ایک کا تہائی حصہ وصیت کی بنا پر اور باقی دو تہائی حصے کی قیمت ہر غلام یت کے ورثاء کو کما کر ادا کرے گا۔‘‘ لیکن یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے میں تصرف ہے اور کسی امتی کو اس کا قطعاً کوئی اختیار نہیں۔ (۴) غیر وارث قریبی رشتے دار کے علاوہ بھی کسی کو وصیت کی جا سکتی ہے۔ (۱) اس قسم کے شخص کا جنازہ تو پڑھا جائے گا مگر اس کی وصیت کو شریعت کے مطابق درست کر دیا جائے گا۔ (۲) موت کے قریب کوئی شخص تہائی مال سے زائد میں تصرف کا اختیار نہیں رکھتا، یعنی وہ ایک تہائی مال سے زیادہ وصیت نہیں کرسکتا۔ (۲) ’’اس نبوی فیصلے کے برعکس، احناف کا خیال ہے کہ ’’سب غلام آزاد ہوں گے۔ ہر ایک کا تہائی حصہ وصیت کی بنا پر اور باقی دو تہائی حصے کی قیمت ہر غلام یت کے ورثاء کو کما کر ادا کرے گا۔‘‘ لیکن یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے میں تصرف ہے اور کسی امتی کو اس کا قطعاً کوئی اختیار نہیں۔ (۴) غیر وارث قریبی رشتے دار کے علاوہ بھی کسی کو وصیت کی جا سکتی ہے۔