سنن النسائي - حدیث 196

ذِكْرُ مَا يُوجِبُ الْغُسْلَ وَمَا لَا يُوجِبُهُ غُسْلُ الْمَرْأَةِ تَرَى فِي مَنَامِهَا مَا يَرَى الرَّجُلُ صحيح أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ الزُّبَيْدِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ كَلَّمَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَائِشَةُ جَالِسَةٌ فَقَالَتْ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي مِنْ الْحَقِّ أَرَأَيْتَ الْمَرْأَةَ تَرَى فِي النَّوْمِ مَا يَرَى الرَّجُلُ أَفَتَغْتَسِلُ مِنْ ذَلِكَ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ قَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ لَهَا أُفٍّ لَكِ أَوَ تَرَى الْمَرْأَةُ ذَلِكَ فَالْتَفَتَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ تَرِبَتْ يَمِينُكِ فَمِنْ أَيْنَ يَكُونُ الشَّبَهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 196

کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟ عورت خواب میں وہی کچھ دیکھے جو مرد دیکھتا ہے تو اس پر غسل واجب ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کی۔ حضرت عائشہ بھی پاس بیٹھی ہوئی تھیں۔ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتا۔ آپ بتائیں، اگر کوئی عورت نیند میں وہ کچھ دیکھتی ہے جو مرد دیکھتا ہے تو کیا وہ غسل کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: افسوس تجھ پر! کیا عورت بھی یہ کچھ دیکھتی ہے؟ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں، (بچے میں عورت کی) مشابہت کیسے ہوتی ہے؟‘‘
تشریح : (۱) [أف لک] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس بات کا علم نہ ہوگا اور ان کے تجربے سے یہ بات نہ گزری ہوگی۔ ویسے بھی عورتوں کو احتلام بہت کم ہتا ہے، خصوصاً خواب میں منی کا نکلنا تو شاذ و نادر ہے۔ (۲) [اتربت یمینک] ’’تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔‘‘ معنی کے لحاظ سے تو یہ بددعا ہی ہے۔ لیکن اہل عرب یہ اور اس طرح کے دیگر محاور، مثلا: [قاتلہ اللہ، ما أشجعہ، لا أم لہ، تکلتک امک] وغیرہ استعمال کرتے تھے۔ اور وہ اس سے ان کے حقیقی معنی مراد نہیں لیتے تھے بلکہ کسی چیز کا انکار کرنے، اس کی مذمت کرنے، اس پر رغبت دلانے یا تعجب کے لیے بولتے تھے۔ واللہ أعلم۔ دیکھیے: (ششرح مسلم للنووي: ۲۸۵/۳، تحت حدیث: ۳۱۱) (۳) [فمن أین یکون الشبہ] یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقلی دلیل دی ہے کہ اگر عورت کو انزال نہیں ہوتا اور اس کا پانی نہیں نکلتا تو بچے میں اس سے مشابہت کہاں سے آ جاتی ہے؟ جب کہ کئی بچوں کی ماؤں سے بھی بہت مشابہت ہوتی ہے۔ (۱) [أف لک] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس بات کا علم نہ ہوگا اور ان کے تجربے سے یہ بات نہ گزری ہوگی۔ ویسے بھی عورتوں کو احتلام بہت کم ہتا ہے، خصوصاً خواب میں منی کا نکلنا تو شاذ و نادر ہے۔ (۲) [اتربت یمینک] ’’تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔‘‘ معنی کے لحاظ سے تو یہ بددعا ہی ہے۔ لیکن اہل عرب یہ اور اس طرح کے دیگر محاور، مثلا: [قاتلہ اللہ، ما أشجعہ، لا أم لہ، تکلتک امک] وغیرہ استعمال کرتے تھے۔ اور وہ اس سے ان کے حقیقی معنی مراد نہیں لیتے تھے بلکہ کسی چیز کا انکار کرنے، اس کی مذمت کرنے، اس پر رغبت دلانے یا تعجب کے لیے بولتے تھے۔ واللہ أعلم۔ دیکھیے: (ششرح مسلم للنووي: ۲۸۵/۳، تحت حدیث: ۳۱۱) (۳) [فمن أین یکون الشبہ] یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقلی دلیل دی ہے کہ اگر عورت کو انزال نہیں ہوتا اور اس کا پانی نہیں نکلتا تو بچے میں اس سے مشابہت کہاں سے آ جاتی ہے؟ جب کہ کئی بچوں کی ماؤں سے بھی بہت مشابہت ہوتی ہے۔