سنن النسائي - حدیث 1959

كِتَابُ الْجَنَائِزِ الصَّلَاةُ عَلَى الْمَرْجُومِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ جُهَيْنَةَ أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ إِنِّي زَنَيْتُ وَهِيَ حُبْلَى فَدَفَعَهَا إِلَى وَلِيِّهَا فَقَالَ أَحْسِنْ إِلَيْهَا فَإِذَا وَضَعَتْ فَأْتِنِي بِهَا فَلَمَّا وَضَعَتْ جَاءَ بِهَا فَأَمَرَ بِهَا فَشُكَّتْ عَلَيْهَا ثِيَابُهَا ثُمَّ رَجَمَهَا ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهَا فَقَالَ لَهُ عُمَرُ أَتُصَلِّي عَلَيْهَا وَقَدْ زَنَتْ فَقَالَ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ سَبْعِينَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَوَسِعَتْهُمْ وَهَلْ وَجَدْتَ تَوْبَةً أَفْضَلَ مِنْ أَنْ جَادَتْ بِنَفْسِهَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1959

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل رجم شدہ شخص کا جنازہ پڑھنا حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ جہینہ (قبیلے) کی ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: میں نے زنا کیا ہے۔ اور وہ حاملہ بھی تھی، لہٰذا آپ نے اس عورت کو اس کے ولی کے سپرد کر دیا اور فرمایا: ’’اس سے حسن سلوک کرنا۔ جب یہ بچہ جن لے تو اسے میرے پاس لے آنا۔‘‘ جب اس نے بچہ جن لیا تو وہ اسے لے کر آیا۔ آپ نے اس کےرجم کا حکم دیا۔ اس کے کپڑے اچھی طرح کس کر باندھ دیے گئے (تاکہ بے پردگی نہ ہو)، پھر اسے (آپ کے حکم سے) رجم کیا گیا، پھر آپ نے اس کا جنازہ پڑھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: آپ اس کا جنازہ پڑھتے ہیں جبکہ اس نے توڑنا کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! اس نے ایسی توبہ کی ہے اگر وہ مدینے والوں میں سے ستر اشخاص پر تقسیم کر دی جائے تو ان سب کو پوری آجائے (ان کی نجات کے لیے کافی ہو) اور اس سے افضل توبہ کیا ہوگی کہ اس نے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔‘‘
تشریح : (۱) ’’ولی کے سپرد کر دیا‘‘ کیونکہ حرام کاری سے پیدا ہونے والا بچہ تو بے قصور ہے، لہٰذا اسے ہلاک نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کی حفاظت کی جائے گی، نیز یہ طریقہ زنا روکنے میں ممد ہوگا کیونکہ بچے کی صورت میں زانیوں کے لیے ابدی عار موجود رہے گی۔ (۲) ’’بچہ جن لیا‘‘ جننے کے فوراً بعد رجم نہیں کیا گیا بلکہ دیگر روایات میں ہے جب بچہ اس کے دودھ سے بے نیاز ہوگیا اور روٹی کھانے لگا۔ قربان جائیں ایسے شفیق و کریم نبی پر۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ (۳) شادی شدہ عورت اگر زنا کا ارتکاب کرے تو اس کو بھی رجم کیا جائے گا جس طرح مرد کو رجم کیا جاتا ہے۔ (۴) حاملہ عورت کو رجم نہیں کیا جائے گا جب تک وضع حمل نہ ہو جائے اور بچہ دودھ کے علاوہ کچھ کھانے پینے لگ جائے۔ (۵) کپڑے باندھ لینا مستحب ہے تاکہ بے پردگی نہ ہو۔ (۶) قاضی یا حاکم کا رجم میں شرکت کرنا ضروری نہیں۔ (۷) گناہ کیے ہوئے زیادہ عرصہ گزر جائے تو اس سے حد ساقط نہیں ہو جاتی بلکہ جب بھی عدالت میں کیس ثابت ہوگیا تو حد قائم کی جائے گی۔ (۸) حد لگنے کے بعد آدمی کو اس گناہ کا طعنہ نہیں دیا جا سکتا کیونکہ حد گناہ کو ختم کر دیتی ہے، اب وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے وہ گناہ کیا ہی نہیں۔ (۱) ’’ولی کے سپرد کر دیا‘‘ کیونکہ حرام کاری سے پیدا ہونے والا بچہ تو بے قصور ہے، لہٰذا اسے ہلاک نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کی حفاظت کی جائے گی، نیز یہ طریقہ زنا روکنے میں ممد ہوگا کیونکہ بچے کی صورت میں زانیوں کے لیے ابدی عار موجود رہے گی۔ (۲) ’’بچہ جن لیا‘‘ جننے کے فوراً بعد رجم نہیں کیا گیا بلکہ دیگر روایات میں ہے جب بچہ اس کے دودھ سے بے نیاز ہوگیا اور روٹی کھانے لگا۔ قربان جائیں ایسے شفیق و کریم نبی پر۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ (۳) شادی شدہ عورت اگر زنا کا ارتکاب کرے تو اس کو بھی رجم کیا جائے گا جس طرح مرد کو رجم کیا جاتا ہے۔ (۴) حاملہ عورت کو رجم نہیں کیا جائے گا جب تک وضع حمل نہ ہو جائے اور بچہ دودھ کے علاوہ کچھ کھانے پینے لگ جائے۔ (۵) کپڑے باندھ لینا مستحب ہے تاکہ بے پردگی نہ ہو۔ (۶) قاضی یا حاکم کا رجم میں شرکت کرنا ضروری نہیں۔ (۷) گناہ کیے ہوئے زیادہ عرصہ گزر جائے تو اس سے حد ساقط نہیں ہو جاتی بلکہ جب بھی عدالت میں کیس ثابت ہوگیا تو حد قائم کی جائے گی۔ (۸) حد لگنے کے بعد آدمی کو اس گناہ کا طعنہ نہیں دیا جا سکتا کیونکہ حد گناہ کو ختم کر دیتی ہے، اب وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے وہ گناہ کیا ہی نہیں۔