سنن النسائي - حدیث 1956

كِتَابُ الْجَنَائِزِ الصَّلَاةُ عَلَى الشُّهَدَاءِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ عَنْ أَبِي الْخَيْرِ عَنْ عُقْبَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1956

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل شہداء کا جنازہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن (اپنی زندگی کے آخری دنوں میں) احد کی طرف گئے اور احد کے شہداء کے لیے اس طرح (آہ و زاری سے) دعائیں کیں جس طرح میت کے لیے کرتے تھے، پھر واپس آکر منبر پر چڑھے اور فرمایا: ’’میں تمھارا پیش رو ہوں۔ (تمھارا میر سامان ہوں) اور میں تمھارے حق میں (ایمان و نصرت کی) گواہی دوں گا۔‘‘
تشریح : (۱) بعض اہل علم نے ترجمہ یوں بھی کیا ہے، ’’آپ نے احد والوں کا جنازہ پڑھا جیسے میت کا پڑھتے ہیں‘‘ مگر یہ معنی محل نظر ہیں۔ اولاً: اس لیے کہ یہ واقعہ ان کی شہادت سے آٹھویں سال کا ہے۔ دفن کے موقع پر جنازہ نہ پڑھنا، سات سال تک نہ پڑھنا پھر آٹھویں سال پڑھنا تعجب کی بات ہے، نیز کوئی بھی آٹھویں سال جنازے کے جواز کا قائل نہیں حتی کہ احناف جو اس روایت سے شہید کے جنازے پر استدلال کرتے ہیں، وہ بھی اتنی دیر بعد جنازے کے قائل نہیں، لہٰذا اس روایت سے شہید کی نماز جنازہ کا استدلال واضح نہیں۔ ثانیاً: اگر پ نے جنازہ پڑھا تھا تو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی ’’جیسے میت کا پڑھتے تھے‘‘ جنازے میں تو صورت ہی ایک ہے۔ کیا میت کے علاوہ بھی جنازہ ہوتا ہے؟ لہٰذا صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بہت الحاح اور اگر یہ زاری سے دعائیں کیں، گویا کہ جنازہ پڑھ رہے ہیں۔ اس معنی میں کوئی اشکال بھی نہیں اور روایات میں تعارض بھی پیدا نہیں ہوتا۔ واللہ أعلم۔ (۲) ’’پیش رو‘‘ اس میں اپنے مقام عظیم کی طرف اشارہ ہے۔ ’’پیش رو‘‘ سے مراد ہے جو قافلے سے آگے آگے انتظامات کرنے، مثلاً: رہائش، پانی اور دیگر ضروریات پر مقرر ہوتا ہے۔ (۳) ’’گواہی‘‘ اللہ تعالیٰ ہر بات سے بذات خود واقف ہے مگر صحابہ کی تعظیم و تشریف کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے حق میں گواہی لی جائے گی جسے سب امتیں سنیں گی رضی اللہ عنہم اجمعین (۴) اس امت کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے کہ ان کا نبی حوض کوثر پر ان کا انتظار کر رہا ہوگا۔ یہ اس امت کے لیے ایک بہت بڑی بشارت ہے۔ (۱) بعض اہل علم نے ترجمہ یوں بھی کیا ہے، ’’آپ نے احد والوں کا جنازہ پڑھا جیسے میت کا پڑھتے ہیں‘‘ مگر یہ معنی محل نظر ہیں۔ اولاً: اس لیے کہ یہ واقعہ ان کی شہادت سے آٹھویں سال کا ہے۔ دفن کے موقع پر جنازہ نہ پڑھنا، سات سال تک نہ پڑھنا پھر آٹھویں سال پڑھنا تعجب کی بات ہے، نیز کوئی بھی آٹھویں سال جنازے کے جواز کا قائل نہیں حتی کہ احناف جو اس روایت سے شہید کے جنازے پر استدلال کرتے ہیں، وہ بھی اتنی دیر بعد جنازے کے قائل نہیں، لہٰذا اس روایت سے شہید کی نماز جنازہ کا استدلال واضح نہیں۔ ثانیاً: اگر پ نے جنازہ پڑھا تھا تو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی ’’جیسے میت کا پڑھتے تھے‘‘ جنازے میں تو صورت ہی ایک ہے۔ کیا میت کے علاوہ بھی جنازہ ہوتا ہے؟ لہٰذا صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بہت الحاح اور اگر یہ زاری سے دعائیں کیں، گویا کہ جنازہ پڑھ رہے ہیں۔ اس معنی میں کوئی اشکال بھی نہیں اور روایات میں تعارض بھی پیدا نہیں ہوتا۔ واللہ أعلم۔ (۲) ’’پیش رو‘‘ اس میں اپنے مقام عظیم کی طرف اشارہ ہے۔ ’’پیش رو‘‘ سے مراد ہے جو قافلے سے آگے آگے انتظامات کرنے، مثلاً: رہائش، پانی اور دیگر ضروریات پر مقرر ہوتا ہے۔ (۳) ’’گواہی‘‘ اللہ تعالیٰ ہر بات سے بذات خود واقف ہے مگر صحابہ کی تعظیم و تشریف کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے حق میں گواہی لی جائے گی جسے سب امتیں سنیں گی رضی اللہ عنہم اجمعین (۴) اس امت کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے کہ ان کا نبی حوض کوثر پر ان کا انتظار کر رہا ہوگا۔ یہ اس امت کے لیے ایک بہت بڑی بشارت ہے۔