سنن النسائي - حدیث 1955

كِتَابُ الْجَنَائِزِ الصَّلَاةُ عَلَى الشُّهَدَاءِ صحيح أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عِكْرِمَةُ بْنُ خَالِدٍ أَنَّ ابْنَ أَبِي عَمَّارٍ أَخْبَرَهُ عَنْ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَعْرَابِ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَآمَنَ بِهِ وَاتَّبَعَهُ ثُمَّ قَالَ أُهَاجِرُ مَعَكَ فَأَوْصَى بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ أَصْحَابِهِ فَلَمَّا كَانَتْ غَزْوَةٌ غَنِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْيًا فَقَسَمَ وَقَسَمَ لَهُ فَأَعْطَى أَصْحَابَهُ مَا قَسَمَ لَهُ وَكَانَ يَرْعَى ظَهْرَهُمْ فَلَمَّا جَاءَ دَفَعُوهُ إِلَيْهِ فَقَالَ مَا هَذَا قَالُوا قِسْمٌ قَسَمَهُ لَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَهُ فَجَاءَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا هَذَا قَالَ قَسَمْتُهُ لَكَ قَالَ مَا عَلَى هَذَا اتَّبَعْتُكَ وَلَكِنِّي اتَّبَعْتُكَ عَلَى أَنْ أُرْمَى إِلَى هَاهُنَا وَأَشَارَ إِلَى حَلْقِهِ بِسَهْمٍ فَأَمُوتَ فَأَدْخُلَ الْجَنَّةَ فَقَالَ إِنْ تَصْدُقْ اللَّهَ يَصْدُقْكَ فَلَبِثُوا قَلِيلًا ثُمَّ نَهَضُوا فِي قِتَالِ الْعَدُوِّ فَأُتِيَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحْمَلُ قَدْ أَصَابَهُ سَهْمٌ حَيْثُ أَشَارَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهُوَ هُوَ قَالُوا نَعَمْ قَالَ صَدَقَ اللَّهَ فَصَدَقَهُ ثُمَّ كَفَّنَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جُبَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَدَّمَهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ فَكَانَ فِيمَا ظَهَرَ مِنْ صَلَاتِهِ اللَّهُمَّ هَذَا عَبْدُكَ خَرَجَ مُهَاجِرًا فِي سَبِيلِكَ فَقُتِلَ شَهِيدًا أَنَا شَهِيدٌ عَلَى ذَلِكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1955

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل شہداء کا جنازہ حضرت شداد بن ہاد سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ پر ایمان لے آیا اور پ کا متبع بن گیا، پھر وہ کہنے لگا: میں تو آپ کے ساتھ مہاجر بن کر رہوں گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کو اس (کے پیام و طعام) کے خیال رکھنے کو کہا، پھر ایک جنگ ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غنیمت میں قیدی ملے۔ آپ نے انھیں تقسیم کیا تو اس اعرابی کا حصہ بھی رکھا او ر اس کے ساتھیوں کو دے دیا۔ وہ ان کے سواری کے اونٹ چرایا کرتا تھا۔ جب وہ چرا کر واپس آیا تو انھوں نے اس کا حصہ اسے دیا۔ اس نے کہا: یہ کیا ہے؟ ساتھیوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے (غنیمت سے) حصہ دیا ہے۔ اس نے اپنا حصہ لیا اور اسے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہنے لگا: یہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’میں نے تجھے تیرا حصہ دیا ہے۔‘‘ وہ کہنے لگا: میں اس کی خاطر تو آپ کا پیروکار نہیں بنا تھا میں تو پ کا پیروکار، اس لیے بنا ہوں کہ مجھے یہاں تیر لگے، اور اس نے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا، اور میں مر کر جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر تو یہ بات سچے دل سے کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ تیری خواہش پوری فرمائے گا۔‘‘ تھوڑے عرصے کے بعد وہ (صحابہ) پھر دشمن سے لڑائی کے لیے گئے تو اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حال میں اٹھا کر لایا گیا کہ اسے اسی جگہ تیر لگا ہوا تھا جہاں اس نے اشارہ کیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا یہ وہی اعرابی ہے؟‘‘ لوگوں نے کہاا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ’’اس نے سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی، اللہ تعالیٰ نے اس کی خواہش پوری فرما دی۔‘‘ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی قمیص میں کفن دیا، پھر اسے آگے رکھا اور اس پر نماز پڑھی۔ آپ کی دعا کے یہ الفاظ ظاہر ہوئے: ’’اے اللہ! یہ تیرا (سچا) بندہ ہے۔ تیرے راستے میں ہجرت کرتے ہوئے گھر سے نکلا اور شہید ہوگیا۔ میں ان باتوں کا عینی گواہ ہوں۔‘‘
تشریح : (۱) زہے قسمت! کیا بلند مرتبہ ملا اس اعرابی کو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان زوردار الفاظ سے اس کے حق میں گواہی دے رہے ہیں۔ رضی اللہ عنہ ہ ہر مدعی کے واسطے دارور سن کہاں؟ (۲) ’’نماز پڑھی‘‘ بعض اہل علم نے اس کے بجائے دعا کرنے کے معنی کیے ہیں کیونکہ یہاں صف بندی کا ذکر ہے نہ تکبیروں کا، صرف دعا کا ذکر ہے، لہٰذا ان کے نزدیک یہی معنی مناسب ہیں تاکہ ان صحیح ترین احادیث کی موافقت ہو جائے جن میں شہدائے احد کے جنازہ نہ پڑھنے کا ذکر ہے جبکہ اس حدیث میں مذکورہ اعمال کے عدم ذکر سے یہ لازم نہیں تھا کہ سرے سے ان امور کا وقوع ہی نہیں ہوا بلکہ یہ اختصار کے پیش نظر بھی ہوسکتا ہے۔ بعض نے اس روایت سے شہید کے جنازے پر استدلال کیا ہے۔ اگر ترجیح دی جائے تو ترجیح اصح روایات ہی کو ہے جن میں جنازہ نہ پڑھنے کا ذکر ہے۔ تطبیق دی جائے تو اس روایت میں دعا کے معنی کرلیے جائیں۔ یا امام احمد رحمہ اللہ کے مطابق کہا جائے کہ شہید کا جنازہ پڑھ سکتے ہیں، ضروری نہیں۔ یہی موقف درست اور اقرب الی الصواب ہے۔ حدیث کے ظاہر کا تقاضا بھی یہی ہے۔ باقی سب احتمالات ہیں، نیز غزوۂ احد کے شہداء پر ترک جنازہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ شہداء کی نماز جنازہ درست نہیں، نہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ کسی اور شہید کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھی جائے یا آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے نہ پڑھی ہو، دونوں طرح جائز ہے، پڑھنا نہ پڑھنا بھی، لیکن چونکہ یہ دعا ہے اور بخشش اور رفع درجات کا ایک ذریعہ ہے جس کا ہر مسلمان، خواہ کتنے ہی بڑے درجے پر فائز کیوں نہ ہو، محتاج رہتا ہے، اس لیے شہید کی نماز جنازہ بجائے ترک کے پڑھ لینا اولی اور افضل ہے۔ واللہ أعلم۔ (۲) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ خاص کر غرباء کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے۔ (۳) شہید کو غسل نہیں دیا جائے گا۔ (۵) شہید کو کفن پہنایا جائے گا۔ (۱) زہے قسمت! کیا بلند مرتبہ ملا اس اعرابی کو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان زوردار الفاظ سے اس کے حق میں گواہی دے رہے ہیں۔ رضی اللہ عنہ ہ ہر مدعی کے واسطے دارور سن کہاں؟ (۲) ’’نماز پڑھی‘‘ بعض اہل علم نے اس کے بجائے دعا کرنے کے معنی کیے ہیں کیونکہ یہاں صف بندی کا ذکر ہے نہ تکبیروں کا، صرف دعا کا ذکر ہے، لہٰذا ان کے نزدیک یہی معنی مناسب ہیں تاکہ ان صحیح ترین احادیث کی موافقت ہو جائے جن میں شہدائے احد کے جنازہ نہ پڑھنے کا ذکر ہے جبکہ اس حدیث میں مذکورہ اعمال کے عدم ذکر سے یہ لازم نہیں تھا کہ سرے سے ان امور کا وقوع ہی نہیں ہوا بلکہ یہ اختصار کے پیش نظر بھی ہوسکتا ہے۔ بعض نے اس روایت سے شہید کے جنازے پر استدلال کیا ہے۔ اگر ترجیح دی جائے تو ترجیح اصح روایات ہی کو ہے جن میں جنازہ نہ پڑھنے کا ذکر ہے۔ تطبیق دی جائے تو اس روایت میں دعا کے معنی کرلیے جائیں۔ یا امام احمد رحمہ اللہ کے مطابق کہا جائے کہ شہید کا جنازہ پڑھ سکتے ہیں، ضروری نہیں۔ یہی موقف درست اور اقرب الی الصواب ہے۔ حدیث کے ظاہر کا تقاضا بھی یہی ہے۔ باقی سب احتمالات ہیں، نیز غزوۂ احد کے شہداء پر ترک جنازہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ شہداء کی نماز جنازہ درست نہیں، نہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ کسی اور شہید کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھی جائے یا آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے نہ پڑھی ہو، دونوں طرح جائز ہے، پڑھنا نہ پڑھنا بھی، لیکن چونکہ یہ دعا ہے اور بخشش اور رفع درجات کا ایک ذریعہ ہے جس کا ہر مسلمان، خواہ کتنے ہی بڑے درجے پر فائز کیوں نہ ہو، محتاج رہتا ہے، اس لیے شہید کی نماز جنازہ بجائے ترک کے پڑھ لینا اولی اور افضل ہے۔ واللہ أعلم۔ (۲) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ خاص کر غرباء کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے۔ (۳) شہید کو غسل نہیں دیا جائے گا۔ (۵) شہید کو کفن پہنایا جائے گا۔