كِتَابُ الْجَنَائِزِ الصَّلَاةُ عَلَى الصِّبْيَانِ صحيح أَخْبَرَنَاعمرو بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى عَنْ عَمَّتِهِ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ عَنْ خَالَتِهَا أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ قَالَتْ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَبِيٍّ مِنْ صِبْيَانِ الْأَنْصَارِ فَصَلَّى عَلَيْهِ قَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ طُوبَى لِهَذَا عُصْفُورٌ مِنْ عَصَافِيرِ الْجَنَّةِ لَمْ يَعْمَلْ سُوءًا وَلَمْ يُدْرِكْهُ قَالَ أَوَ غَيْرُ ذَلِكَ يَا عَائِشَةُ خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْجَنَّةَ وَخَلَقَ لَهَا أَهْلًا وَخَلَقَهُمْ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ وَخَلَقَ النَّارَ وَخَلَقَ لَهَا أَهْلًا وَخَلَقَهُمْ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ
کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
بچوں کاجنازہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ انصار کے بچوں میں سے ایک بچے کی میت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی تو آپ نے اس کا جنازہ پڑھا۔ میں نے کہا: اسے مبارک ہو یہ تو جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے۔ اس نے کوئی برائی کی نہ برائی کی عمر قائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عائشہ! کیا پتہ کوئی اور بات ہو جائے؟ اللہ تعالیٰ نے جنت بنائی تو اس میں جانے والے بھی بنا دیے اور انھیں باپوں کی پشتوں میں پیدا کیا۔ اسی طرح آگ بنائی تو اس میں جانے والے بھی بنائے اور انھیں اپنے باپوں کی پشتوں میں پیدا کیا۔‘‘
تشریح :
(۱) اگر بچہ بلوغت سے پہلے بے گناہ ہوتا ہے مگر جنازہ مسلم میت کی سنت ہے، نیز بخشش اور دعائے رحمت بچے کے والدین کے لیے ہوگی، اس لیے بچے کا جنازہ بھی پڑھا جائے گا۔ (۲) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت یا جہنم میں جانے والوں کا قطعی علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، کسی فرد واحد کو قطعیت کے ساتھ جنتی یا جہنمی نہیں کہا جا سکتا (جب تک وحی نہ آئے) خواہ وہ نابالغ بچہ ہی ہو، البتہ عمومی حکم یہی ہے کہ مسلمانوں کے بچے (بلوغت سے پہلے فوت ہونے والے) جنات میں جائیں گے۔ ایک دوسری تطبیق اس طرح ہوسکتی ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب بچوں کے بارے میں کوئی خصوصی حکم نازل نہیں ہوا تھا بعد میں بتا دیا گیا کہ مسلمانوں کے بچے جنت میں جائیں گے۔ کفار کے بچوں کے بارے میں اختلاف ہے۔
بعض اہل علم کا موقف یہ ہے کہ جب کفار کے بچے سن تمیز سے پہلے فوت ہو جائیں اور ان کے والد کافر ہوں تو دنیا میں ان کا حکم کافروں کا ہوگا کہ نہ انھیں غسل دیا جائے گا نہ کفن دیا جائے گا نہ جنازہ پڑھا جائے گا اور نہ انھیںمسلمانوں کے ساتھ دفن کیا جائے گا کیونکہ وہ اپنے والدین کے ساتھ کافر ہی ہیں باقی رہا آخرت میں ان کا حال تو یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اگر وہ بڑے ہوتے تو دنیا میں کس طرح کے عمل کرتے؟ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب مشرکوں کے بچوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے؟‘‘ (صحیح البخاري، القدر، حدیث: ۶۵۹۷) نیز بعض اہل علم کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا علم قیامت کے دن ظاہر ہوگا اور ان کا بھی اہل فترت کی طرح امتحان ہوگا اگر انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی فرمانبرداری کی تو جنت میں داخل ہوں گے اور اگر نافرمانی کی تو جہنم رسید ہوں گے۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اہل فترت کا قیامت کے دن امتحان ہوگا۔ اہل فترت سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس انبیاء کی دعوت نہیں پہنچی ہوگی۔ اسی طرح جو لوگ ان کے حکم میں ہوں گے، مثلاً: کفار اور مشرکین کے بچے، ان کا بھی امتحان ہوگا کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا) (بنی اسرآئیل ۱۵:۱۷) ’’اہل فترت کے بار میں سب سے زیادہ صحیح قول یہی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ، امام ابن قیم، فضیلۃ الشیخ ابن باز اور فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح التثیمین رحمہم اللہ نے اسی کو اختیار کیا ہے جبکہ بعض اہل علم کے بقول وہ جنت میں جائیں گے کیونکہ وہ بے گناہ ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتاویٰ ابن تیمیہ: ۳۷۲/۲۴، ۲۷۳، و ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۱۹۳/۱۹- ۱۹۶) (۳) جنت اور جہنم کا وجود ہے۔
(۱) اگر بچہ بلوغت سے پہلے بے گناہ ہوتا ہے مگر جنازہ مسلم میت کی سنت ہے، نیز بخشش اور دعائے رحمت بچے کے والدین کے لیے ہوگی، اس لیے بچے کا جنازہ بھی پڑھا جائے گا۔ (۲) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت یا جہنم میں جانے والوں کا قطعی علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، کسی فرد واحد کو قطعیت کے ساتھ جنتی یا جہنمی نہیں کہا جا سکتا (جب تک وحی نہ آئے) خواہ وہ نابالغ بچہ ہی ہو، البتہ عمومی حکم یہی ہے کہ مسلمانوں کے بچے (بلوغت سے پہلے فوت ہونے والے) جنات میں جائیں گے۔ ایک دوسری تطبیق اس طرح ہوسکتی ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب بچوں کے بارے میں کوئی خصوصی حکم نازل نہیں ہوا تھا بعد میں بتا دیا گیا کہ مسلمانوں کے بچے جنت میں جائیں گے۔ کفار کے بچوں کے بارے میں اختلاف ہے۔
بعض اہل علم کا موقف یہ ہے کہ جب کفار کے بچے سن تمیز سے پہلے فوت ہو جائیں اور ان کے والد کافر ہوں تو دنیا میں ان کا حکم کافروں کا ہوگا کہ نہ انھیں غسل دیا جائے گا نہ کفن دیا جائے گا نہ جنازہ پڑھا جائے گا اور نہ انھیںمسلمانوں کے ساتھ دفن کیا جائے گا کیونکہ وہ اپنے والدین کے ساتھ کافر ہی ہیں باقی رہا آخرت میں ان کا حال تو یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اگر وہ بڑے ہوتے تو دنیا میں کس طرح کے عمل کرتے؟ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب مشرکوں کے بچوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے؟‘‘ (صحیح البخاري، القدر، حدیث: ۶۵۹۷) نیز بعض اہل علم کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا علم قیامت کے دن ظاہر ہوگا اور ان کا بھی اہل فترت کی طرح امتحان ہوگا اگر انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی فرمانبرداری کی تو جنت میں داخل ہوں گے اور اگر نافرمانی کی تو جہنم رسید ہوں گے۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اہل فترت کا قیامت کے دن امتحان ہوگا۔ اہل فترت سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس انبیاء کی دعوت نہیں پہنچی ہوگی۔ اسی طرح جو لوگ ان کے حکم میں ہوں گے، مثلاً: کفار اور مشرکین کے بچے، ان کا بھی امتحان ہوگا کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا) (بنی اسرآئیل ۱۵:۱۷) ’’اہل فترت کے بار میں سب سے زیادہ صحیح قول یہی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ، امام ابن قیم، فضیلۃ الشیخ ابن باز اور فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح التثیمین رحمہم اللہ نے اسی کو اختیار کیا ہے جبکہ بعض اہل علم کے بقول وہ جنت میں جائیں گے کیونکہ وہ بے گناہ ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتاویٰ ابن تیمیہ: ۳۷۲/۲۴، ۲۷۳، و ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۱۹۳/۱۹- ۱۹۶) (۳) جنت اور جہنم کا وجود ہے۔