سنن النسائي - حدیث 1938

كِتَابُ الْجَنَائِزِ النَّهْيُ عَنْ سَبِّ الْأَمْوَاتِ صحيح أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ عَنْ بِشْرٍ وَهُوَ ابْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ فَإِنَّهُمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّمُوا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1938

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل فوت شدہگان کو برا کہنے کی ممانعت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے منقول ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مردوں کو برا نہ کہو کیونکہ وہ اپنے اعمال (کی جزا و سزا) کی طرف پہنچ چکے ہیں۔‘‘
تشریح : فوت شدگان کے معاملے کو اللہ کے سپرد کر دیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہی صحیح ہے۔ ہم کسی ایسے شخص کو برا کہیں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اچھا ہو تو اس میں بہت گناہ ہے، لہٰذا خاموشی بہتر ہے، البتہ وہ کافر یا منافق یا فاجر جو علانیہ عوام الناس کے نزدیک ان اوصاف میں معروف اور بدنام ہیں، ان کی موت اگر انھی اوصاف پر ہوئی تو انھیں ان اوصاف کے ساتھ ذکر کیا جا سکتا ہے تاکہ لوگ ان کی اقتدا نہ کریں۔ اسی طرح ائمہ مضلین (اہل بدعت) کی گمراہیوں کی ضواحت کرنی بھی جائز بلکہ ضروری ہے۔ فوت شدگان کے معاملے کو اللہ کے سپرد کر دیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہی صحیح ہے۔ ہم کسی ایسے شخص کو برا کہیں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اچھا ہو تو اس میں بہت گناہ ہے، لہٰذا خاموشی بہتر ہے، البتہ وہ کافر یا منافق یا فاجر جو علانیہ عوام الناس کے نزدیک ان اوصاف میں معروف اور بدنام ہیں، ان کی موت اگر انھی اوصاف پر ہوئی تو انھیں ان اوصاف کے ساتھ ذکر کیا جا سکتا ہے تاکہ لوگ ان کی اقتدا نہ کریں۔ اسی طرح ائمہ مضلین (اہل بدعت) کی گمراہیوں کی ضواحت کرنی بھی جائز بلکہ ضروری ہے۔