سنن النسائي - حدیث 1937

كِتَابُ الْجَنَائِزِ النَّهْيُ عَنْ ذِكْرِ الْهَلْكَى إِلَّا بِخَيْرٍ صحيح أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَ حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَقَ قَالَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ قَالَ حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أُمِّهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ ذُكِرَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَالِكٌ بِسُوءٍ فَقَالَ لَا تَذْكُرُوا هَلْكَاكُمْ إِلَّا بِخَيْرٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1937

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل فوت شدہ گان کا ذکر خیر ہی کیا جائے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی فوت شدہ شخص کی برائی بیان کی گئی تو آپ نے فرمایا: ’’اپنے فوت شدگان کا ذکر خیر ہی کیا کرو۔‘‘
تشریح : کسی غائب شخص کی برائی ذکر کرنا تو زندگی میں بھی غیبت بن جاتی ہے جو سخت منع ہے، حالانکہ اس کی طرف سے دفاع ممکن ہے، تو ایک میت جو اپنا دفاع بھی نہیں کرسکتا اس کی برائی بیان کرنا کیونکر جائز ہوسکتا ہے، نیز گناہوں اور کوتاہیوں سے کون پاک ہے؟ لہٰذا فوت شدہ کی برائی بیان نہ کی جائے بلکہ درگزر کیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سے درگزر فرمائے، البتہ امت مسلمہ کے مفاد کے لیے ضرورت کی حد تک کسی زندہ یا فوت شدہ کی برائی بیان ہوسکتی ہے، جیسے رجالِ حدیث کا فن۔ کسی غائب شخص کی برائی ذکر کرنا تو زندگی میں بھی غیبت بن جاتی ہے جو سخت منع ہے، حالانکہ اس کی طرف سے دفاع ممکن ہے، تو ایک میت جو اپنا دفاع بھی نہیں کرسکتا اس کی برائی بیان کرنا کیونکر جائز ہوسکتا ہے، نیز گناہوں اور کوتاہیوں سے کون پاک ہے؟ لہٰذا فوت شدہ کی برائی بیان نہ کی جائے بلکہ درگزر کیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سے درگزر فرمائے، البتہ امت مسلمہ کے مفاد کے لیے ضرورت کی حد تک کسی زندہ یا فوت شدہ کی برائی بیان ہوسکتی ہے، جیسے رجالِ حدیث کا فن۔