سنن النسائي - حدیث 1928

كِتَابُ الْجَنَائِزِ الرُّخْصَةُ فِي تَرْكِ الْقِيَامِ صحيح أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ هَارُونَ الْبَلْخِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ كَانَ جَالِسًا فَمُرَّ عَلَيْهِ بِجَنَازَةٍ فَقَامَ النَّاسُ حَتَّى جَاوَزَتْ الْجَنَازَةُ فَقَالَ الْحَسَنُ إِنَّمَا مُرَّ بِجَنَازَةِ يَهُودِيٍّ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى طَرِيقِهَا جَالِسًا فَكَرِهَ أَنْ تَعْلُوَ رَأْسَهُ جَنَازَةُ يَهُودِيٍّ فَقَامَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1928

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل کھڑانہ ہو نے کی رخصت حضرت محمد باقر رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک جنازہ گزرا۔ لوگ کھڑے ہوگئے حتی کہ جنازہ آگے چلا گیا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: بات اتنی تھی کہ ایک یہودی کا جنازہ گزرا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازے کے راستے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے ناپسند فرمایا کہ ایک یہودی کا جنازہ آپ کے سر سے اونچا ہو، اس لیے آپ کھڑے ہوگئے۔
تشریح : یہ روایت سابقہ روایات سے مختلف ہے۔ ان میں تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کھڑے ہونے کے قائل و فاعل ہیں، اور اس روایت میں اس کے خلاف ہیں۔ کثرت کی بنا پر ان روایات کو ترجیح ہوگی، نیز یہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا اپنا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وجہ سے کھڑے ہئے تھے، ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اور وجہ بتلائی ہے۔ حدیث: ۱۹۲۲ میں ألیس نفسا اور حدیث نمبر ۱۹۲۳ میں إن للموت فزعا فرمایا۔ اور حدیث: ۱۹۳۱ میں آ رہا ہے کہ ہم فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ وجوہات معتبر ہیں نہ کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا اپنا خیال۔ بالفرض یہ وجہ بھی ہو تو مذکورہ بالا وجوہات تو پھر بھی قائم ہیں، لہٰذا صحیح یہی ہے کہ جنازہ آتا دیکھ کر کھڑے ہونا چاہیے، یہ افضل اور مستحب ہے، اگرچہ بیٹھے رہنے کی بھی گنجائش ہے۔ واللہ أعلم۔ یہ روایت سابقہ روایات سے مختلف ہے۔ ان میں تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کھڑے ہونے کے قائل و فاعل ہیں، اور اس روایت میں اس کے خلاف ہیں۔ کثرت کی بنا پر ان روایات کو ترجیح ہوگی، نیز یہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا اپنا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وجہ سے کھڑے ہئے تھے، ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اور وجہ بتلائی ہے۔ حدیث: ۱۹۲۲ میں ألیس نفسا اور حدیث نمبر ۱۹۲۳ میں إن للموت فزعا فرمایا۔ اور حدیث: ۱۹۳۱ میں آ رہا ہے کہ ہم فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ وجوہات معتبر ہیں نہ کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا اپنا خیال۔ بالفرض یہ وجہ بھی ہو تو مذکورہ بالا وجوہات تو پھر بھی قائم ہیں، لہٰذا صحیح یہی ہے کہ جنازہ آتا دیکھ کر کھڑے ہونا چاہیے، یہ افضل اور مستحب ہے، اگرچہ بیٹھے رہنے کی بھی گنجائش ہے۔ واللہ أعلم۔