سنن النسائي - حدیث 1904

كِتَابُ الْجَنَائِزِ الْقَمِيصُ فِي الْكَفَنِ صحيح أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ الْأَعْمَشِ ح و أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ قَالَ سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ قَالَ سَمِعْتُ شَقِيقًا قَالَ حَدَّثَنَا خَبَّابٌ قَالَ هَاجَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبْتَغِي وَجْهَ اللَّهِ تَعَالَى فَوَجَبَ أَجْرُنَا عَلَى اللَّهِ فَمِنَّا مَنْ مَاتَ لَمْ يَأْكُلْ مِنْ أَجْرِهِ شَيْئًا مِنْهُمْ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ فَلَمْ نَجِدْ شَيْئًا نُكَفِّنُهُ فِيهِ إِلَّا نَمِرَةً كُنَّا إِذَا غَطَّيْنَا رَأْسَهُ خَرَجَتْ رِجْلَاهُ وَإِذَا غَطَّيْنَا بِهَا رِجْلَيْهِ خَرَجَتْ رَأْسُهُ فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُغَطِّيَ بِهَا رَأْسَهُ وَنَجْعَلَ عَلَى رِجْلَيْهِ إِذْخِرًا وَمِنَّا مَنْ أَيْنَعَتْ لَهُ ثَمَرَتُهُ فَهُوَ يَهْدِبُهَا وَاللَّفْظُ لِإِسْمَعِيلَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1904

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل کفن کی قمیص حضرت خباب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی تو ہم صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے طالب تھے، لہٰذا ہمارا ثواب اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لے لیا۔ ہم میں سے کچھ تو اس حالت میں فوت ہوئے کہ انھوں نے اپنے اجر و ثواب کا کچھ بھی حصہ دنیا میں وصول نہ کیا تھا۔ ایسے مخلصین میں سے ایک حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ تھے جو جنگ احد میں شہید ہوئے۔ ہمیں ان کو کفن دینے کے لیے صرف ایک چادر ملی، وہ بھی اتنی (چھوٹی تھی) کہ جب ہم ان کا سر ڈھانپتے تو ان کے پاؤں ننگے ہو جاتے تھے اور جب ہم ان کے پاؤں ڈھانپتے تھے تو ان کا سر ننگا ہو جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ ہم اس سے ان کا سر ڈھانپ دیں اور پاؤں پر گھاس ڈال دیں۔ اور ہم میں سے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ جن کے لیے ان کے ثواب کا پھل اس دنیا میں بھی پک کر تیار ہوگیا۔ وہ اس کو توڑ توڑ کر کھا رہے ہیں۔ حدیث کے یہ الفاظ اسماعیل بن مسعود راوی کے بیان کردہ ہیں۔
تشریح : (۱) ان الفاظ کا یہ مطلب نہیں کہ انھیں آخرت میں ثواب نہیں ملے گا بلکہ مقصود یہ ہے کہ ان لوگوں کو ان کی ہجرت کے کچھ نتائج دنیا میں بھی حاصل ہوگئے، آخر میں تو ثواب بہرصورت ملے گا۔ مگر مصعب رضی اللہ عنہ جیسے ساتھیوں کا درجہ بہت اونچا ہوگا۔ (۲) اس روایت میں قمیص کا ذکر نہیں ہے۔ جس سے بلاقمیص کفن کی مشروعیت پر استدلال ہے، جبکہ آغاز باب میں عبداللہ بن ابی کی روایت سے اس کے جواز کا رجحان معلوم ہوتا ہے لیکن یہ اس وقت ہے جب کوئی اور چارۂ کار نہ ہو، نیز اسے مذکورہ عنوان کے تحت ذکر کرنے کا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک کپڑے میں بھی کفن جائز ہے جبکہ صورت حال اس قسم کی ہو۔ واللہ أعلم۔ (۱) ان الفاظ کا یہ مطلب نہیں کہ انھیں آخرت میں ثواب نہیں ملے گا بلکہ مقصود یہ ہے کہ ان لوگوں کو ان کی ہجرت کے کچھ نتائج دنیا میں بھی حاصل ہوگئے، آخر میں تو ثواب بہرصورت ملے گا۔ مگر مصعب رضی اللہ عنہ جیسے ساتھیوں کا درجہ بہت اونچا ہوگا۔ (۲) اس روایت میں قمیص کا ذکر نہیں ہے۔ جس سے بلاقمیص کفن کی مشروعیت پر استدلال ہے، جبکہ آغاز باب میں عبداللہ بن ابی کی روایت سے اس کے جواز کا رجحان معلوم ہوتا ہے لیکن یہ اس وقت ہے جب کوئی اور چارۂ کار نہ ہو، نیز اسے مذکورہ عنوان کے تحت ذکر کرنے کا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک کپڑے میں بھی کفن جائز ہے جبکہ صورت حال اس قسم کی ہو۔ واللہ أعلم۔