سنن النسائي - حدیث 1901

كِتَابُ الْجَنَائِزِ الْقَمِيصُ فِي الْكَفَنِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا نَافِعٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ لَمَّا مَاتَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ جَاءَ ابْنُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اعْطِنِي قَمِيصَكَ حَتَّى أُكَفِّنَهُ فِيهِ وَصَلِّ عَلَيْهِ وَاسْتَغْفِرْ لَهُ فَأَعْطَاهُ قَمِيصَهُ ثُمَّ قَالَ إِذَا فَرَغْتُمْ فَآذِنُونِي أُصَلِّي عَلَيْهِ فَجَذَبَهُ عُمَرُ وَقَالَ قَدْ نَهَاكَ اللَّهُ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى الْمُنَافِقِينَ فَقَالَ أَنَا بَيْنَ خِيرَتَيْنِ قَالَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ فَصَلَّى عَلَيْهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ فَتَرَكَ الصَّلَاةَ عَلَيْهِمْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1901

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل کفن کی قمیص حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب عبداللہ بن ابی (منافقین کا سردار) مر گیا تو اس کے بیٹے (عبداللہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور گزارش کی کہ مجھے اپنی قمیص مبارک عطا فرمائیں تاکہ میں اپنے باپ کو اس میں کفن دوں۔ آپ اس کا جنازہ بھی پڑھیے اور اس کے لیے بخشش کی دعا بھی کیجیے۔ آپ نے انھیں قمیص دے دی اور فرمایا: ’’جب تم غسل اور کفن سے فارغ ہو تو مجھے اطلاع کرنا، میں اس کا جنازہ پڑھوں گا۔‘‘ (جب آپ جنازے پر پہنچے تو) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو اپنی طرف متوجہ کیا اور گزارش کی کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کا جنازہ پڑھنے سے روکا نہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’(نہیں) مجھے دو چیزوں میں اختیار دیا گیا ہے کہ ان (منافقین) کے لیے بخشش طلب کرو یا نہ کرو، اللہ انھیں معاف نہیں فرمائے گا۔‘‘ پھر آپ نے جنازہ پڑھ دیا۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: (ولا تصل علی احد ………… ولا تقم علی قبرہ) ’’ان منافقین میں سے کوئی مر جائے تو کبھی بھی اس کا جنازہ نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔‘‘ پھر آپ نے منافقین کا جنازہ پڑھنا چھوڑ دیا۔
تشریح : (۱) عبداللہ بن ابی منافق کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ انتہائی مخلص مسلمان تھے۔ ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر مندرجہ بالا گزارشات کرنا فطری چیز ہے۔ ہر بیٹا خصوصاً نیک بیٹا ماں باپ کی بھلائی چاہتا ہے۔ چونکہ عبداللہ بن ابی ظاہراً کلمہ گو تھا، اس لیے وہ سمجھتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے شاید اس کی مغفرت ہو جائے، بالخصوص جبکہ ابھی منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے یا نہ پڑھنے کی بابت کوئی واضح حکم بھی نہیں آیا تھا۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے مطالبات کو تسلیم فرما لینا دراصل اس مسلمان بیٹے کی دلداری کے علاوہ آپ کی رحمۃ للعالمینی کا بھی مظہر تھا۔ اس واقعے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ممانعت کا حکم نازل فرما دیا۔ (۲) ’’قمیص دے دی‘‘ کہا گیا ے کہ یہ قمیص دراصل اس قمیص کے بدلے کے طور پر دی تھی جو قمیص عبداللہ بن ابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بدر کی جنگ کے قیدی کی حیثیت میں دی تھی۔ (۳) ’’روکا نہیں؟‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ جب اس کی مغفرت ممکن نہیں تو مسلب یہی ہے کہ جنازہ نہ پڑھو مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے انداز بیان میں امید کی کرن دیکھی کیونکہ صراحتاً حکم ممانعت نہ تھا، ہاں مشرک کے لیے استغفار سے صراحتاً روکا گیا تھا مگر عبداللہ بن ابی منافق تھا، مشرک نہ تھا، منافق کا حکم بعد میں اترا۔ (۴) امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال فرمایا ہے کہ قمیص بھی کفن میں شامل ہوسکتی ہے۔ لیکن دیگر دلائل و احادیث کی روشنی میں یہ استدلال محل نظر ہے کیونکہ ان میں خود آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے لیے تین کپڑوں کا انتخاب ہوا اور یقیناً جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تجویز ہوا وہی افضل ہے۔ رہی بات جواز کی تو صورتِ حال کا جائزہ لینے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک اتفاقی واقعہ تھا جو عام جواز کی دلیل نہیں بن سکتا، وہ اس طرح کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قمیص کا مطالبہ کیا تھا جو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وجودِ مسعود پر تھی اور خاص کر آپ کی جلد کے ساتھ لگی تھی، آپ اس کا انکار نہ فرما سکے بلکہ تالیف قلب اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حوصلہ افزائی کی خاطر آپ نے انھیں دے دی بلکہ عبداللہ بن ابی کو خود پہنا دی جیسا کہ صحیح بخاری (حدیث: ۱۲۷۰) میں ہے۔ بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس قمیص کا بدلہ تھا جو آپ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو عبداللہ بن ابی نے دی تھی جبکہ وہ جنگ بدر کے بعد قیدی بنے کیونکہ ان کی قمیص پھٹی ہوئی تھی اور عام پیمائش کی قمیص انھیں پوری نہیں آئی تھی تب انھیں وہ قمیص مرحمت کی گئی عبداللہ بن ابی قدآور انسان تھا۔ بہرحال اس حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق عظیم کا پتا چلتا ہے کہ آآ کو اس کے منافق ہونے کا یقین تھا، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، اسلام اور دیگر مسلمانوں کے لیے اس کی ایذا بھی ڈھکی چھپی نہیں تھی، اس کے باوجود آپ نے اسے قمیص پہنائی اور اس کا جنازہ پڑھا۔ (۵) منافق پر اس کے ظاہر کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا میں اسلام والے احکام جاری ہوں گے۔ (۶) آدمی زندہ ہو یا مردہ، اس کی حقیقت کے بارے میں اظہار کیا جا سکتا ہے، جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن ابی کے منافق ہونے کا اظہار کیا ہے، یہ لاتسبوا الاموات (مردوں کو برا بھلا نہ کہو) میں شامل نہیں۔ (۷) آدمی صاحب علم و فضل شخصیت کو کوئی ایسا کام کرتے دیکھے جسے وہ خلاف شرع سمجھتا ہے تو وہ استفسار کرسکتا ہے۔ (۸) صاحب فضل شخص کو اچھی طرح وضاحت کرکے اس آدمی کا اشکال دور کرنا چاہیے۔ (۱) عبداللہ بن ابی منافق کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ انتہائی مخلص مسلمان تھے۔ ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر مندرجہ بالا گزارشات کرنا فطری چیز ہے۔ ہر بیٹا خصوصاً نیک بیٹا ماں باپ کی بھلائی چاہتا ہے۔ چونکہ عبداللہ بن ابی ظاہراً کلمہ گو تھا، اس لیے وہ سمجھتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے شاید اس کی مغفرت ہو جائے، بالخصوص جبکہ ابھی منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے یا نہ پڑھنے کی بابت کوئی واضح حکم بھی نہیں آیا تھا۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے مطالبات کو تسلیم فرما لینا دراصل اس مسلمان بیٹے کی دلداری کے علاوہ آپ کی رحمۃ للعالمینی کا بھی مظہر تھا۔ اس واقعے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ممانعت کا حکم نازل فرما دیا۔ (۲) ’’قمیص دے دی‘‘ کہا گیا ے کہ یہ قمیص دراصل اس قمیص کے بدلے کے طور پر دی تھی جو قمیص عبداللہ بن ابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بدر کی جنگ کے قیدی کی حیثیت میں دی تھی۔ (۳) ’’روکا نہیں؟‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ جب اس کی مغفرت ممکن نہیں تو مسلب یہی ہے کہ جنازہ نہ پڑھو مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے انداز بیان میں امید کی کرن دیکھی کیونکہ صراحتاً حکم ممانعت نہ تھا، ہاں مشرک کے لیے استغفار سے صراحتاً روکا گیا تھا مگر عبداللہ بن ابی منافق تھا، مشرک نہ تھا، منافق کا حکم بعد میں اترا۔ (۴) امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال فرمایا ہے کہ قمیص بھی کفن میں شامل ہوسکتی ہے۔ لیکن دیگر دلائل و احادیث کی روشنی میں یہ استدلال محل نظر ہے کیونکہ ان میں خود آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے لیے تین کپڑوں کا انتخاب ہوا اور یقیناً جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تجویز ہوا وہی افضل ہے۔ رہی بات جواز کی تو صورتِ حال کا جائزہ لینے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک اتفاقی واقعہ تھا جو عام جواز کی دلیل نہیں بن سکتا، وہ اس طرح کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قمیص کا مطالبہ کیا تھا جو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وجودِ مسعود پر تھی اور خاص کر آپ کی جلد کے ساتھ لگی تھی، آپ اس کا انکار نہ فرما سکے بلکہ تالیف قلب اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حوصلہ افزائی کی خاطر آپ نے انھیں دے دی بلکہ عبداللہ بن ابی کو خود پہنا دی جیسا کہ صحیح بخاری (حدیث: ۱۲۷۰) میں ہے۔ بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس قمیص کا بدلہ تھا جو آپ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو عبداللہ بن ابی نے دی تھی جبکہ وہ جنگ بدر کے بعد قیدی بنے کیونکہ ان کی قمیص پھٹی ہوئی تھی اور عام پیمائش کی قمیص انھیں پوری نہیں آئی تھی تب انھیں وہ قمیص مرحمت کی گئی عبداللہ بن ابی قدآور انسان تھا۔ بہرحال اس حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق عظیم کا پتا چلتا ہے کہ آآ کو اس کے منافق ہونے کا یقین تھا، نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، اسلام اور دیگر مسلمانوں کے لیے اس کی ایذا بھی ڈھکی چھپی نہیں تھی، اس کے باوجود آپ نے اسے قمیص پہنائی اور اس کا جنازہ پڑھا۔ (۵) منافق پر اس کے ظاہر کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا میں اسلام والے احکام جاری ہوں گے۔ (۶) آدمی زندہ ہو یا مردہ، اس کی حقیقت کے بارے میں اظہار کیا جا سکتا ہے، جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن ابی کے منافق ہونے کا اظہار کیا ہے، یہ لاتسبوا الاموات (مردوں کو برا بھلا نہ کہو) میں شامل نہیں۔ (۷) آدمی صاحب علم و فضل شخصیت کو کوئی ایسا کام کرتے دیکھے جسے وہ خلاف شرع سمجھتا ہے تو وہ استفسار کرسکتا ہے۔ (۸) صاحب فضل شخص کو اچھی طرح وضاحت کرکے اس آدمی کا اشکال دور کرنا چاہیے۔