سنن النسائي - حدیث 1882

كِتَابُ الْجَنَائِزِ غَسْلُ الْمَيِّتِ بِالْمَاءِ وَالسِّدْرِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ أَنَّ أُمَّ عَطِيَّةَ الْأَنْصَارِيَّةَ قَالَتْ دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَتْ ابْنَتُهُ فَقَالَ اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكِ إِنْ رَأَيْتُنَّ ذَلِكِ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ فَأَعْطَانَا حَقْوَهُ وَقَالَ أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1882

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل میت کو پانی اور بیری کےپتوں سے غسل دینا حضرت ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحبزادی کی وفات کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’اسے تین مرتبہ یا پانچ مرتبہ یا اس سے زیادہ مرتبہ، اگر ضرورت ہوتو، پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور آخری مرتبہ کا فور ڈال دو یا تھوڑا سا کا فور شامل کر دو اور فارغ ہوکر مجھے اطلاع دینا۔‘‘ چنانچہ ہم نے فارغ ہوکر آپ کو اطلاع دی تو آپ نے ہمیں اپنا تہ بند دیا اور فرمایا: ’’اسے اس کے بدن پر لپیٹ دو۔‘‘
تشریح : (۱)یہ آپ کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا تھیں۔ اگرچہ بعض نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا بھی کہا ہے۔ (۲) بیری کے پتے صفائی اور نرمی وغیرہ کے لیے ڈالے جاتے تھے۔ یہی مقصد اگر کسی صابن سے پورا ہو جائے تو بیری کے پتے کوئی ضروری نہیں۔ اس وقت صابن وغیرہ نہ تھے۔ یہ چیزیں مقصود نہیں، ذرائع ہیں اور ذرائع بدلتے رہتے ہیں، تاہم بیری کے پتے استعمال کرلینے بہتر ہیں۔ (۳) آپ کا اپنا ازار (تہ بند) پہنانے کے لیے دینا بطور تبرک تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ سے متعلق اشیاء سے تبرک تو متفقہ مسئلہ ہے، البتہ دوسرے صالحین سے تبرک کے ثبوت کی کوئی دلیل نہیں۔ صحابہ نے ایسا نہیں کیا۔ (۴) میت کو طاق عدد میں غسل دینا چاہیے۔ (۱)یہ آپ کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا تھیں۔ اگرچہ بعض نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا بھی کہا ہے۔ (۲) بیری کے پتے صفائی اور نرمی وغیرہ کے لیے ڈالے جاتے تھے۔ یہی مقصد اگر کسی صابن سے پورا ہو جائے تو بیری کے پتے کوئی ضروری نہیں۔ اس وقت صابن وغیرہ نہ تھے۔ یہ چیزیں مقصود نہیں، ذرائع ہیں اور ذرائع بدلتے رہتے ہیں، تاہم بیری کے پتے استعمال کرلینے بہتر ہیں۔ (۳) آپ کا اپنا ازار (تہ بند) پہنانے کے لیے دینا بطور تبرک تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ سے متعلق اشیاء سے تبرک تو متفقہ مسئلہ ہے، البتہ دوسرے صالحین سے تبرک کے ثبوت کی کوئی دلیل نہیں۔ صحابہ نے ایسا نہیں کیا۔ (۴) میت کو طاق عدد میں غسل دینا چاہیے۔