سنن النسائي - حدیث 1879

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَاب النَّعْي صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ قَالَ أَنْبَأَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَى زَيْدًا وَجَعْفَرًا قَبْلَ أَنْ يَجِيءَ خَبَرُهُمْ فَنَعَاهُمْ وَعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1879

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل وفات کی اطلاع کرنا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہا کی وفات کی اطلاع ان کی خبر آنے سے پہلے ہی (بذریعۂ وحی) فرما دی تھی۔ جب آپ نے اطلاع فرمائی تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
تشریح : (۱)موت کی اطلاع دینا درست ہے۔ جبکہ ایک حدیث میں نعي سے روکا گیا ہے۔ دیکھیے: (مسند أحمد: ۳۸۵/۵) دراصل اس سے مراد جاہلیت کے دور کی طرح موت کا اعلان ہے جو صرف فخر و مباہات کے لیے بڑے بڑے جھوٹے سچے القابات کے ذریعے سے کیا جاتا تھا، اس کا مقصد اطلاع کے بجائے فخر تھا اور وہ باقاعدہ پیش ور حضرات کے ذریعے سے بڑے اہتمام اور خرچ کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ (۲) یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ صحابہ شام میں شہیدہوئے اور آپ نے مدینہ میں انکی خبر دے دی۔ شام سے ان کی شہادت کی خبر بعد میں آئی۔ (۱)موت کی اطلاع دینا درست ہے۔ جبکہ ایک حدیث میں نعي سے روکا گیا ہے۔ دیکھیے: (مسند أحمد: ۳۸۵/۵) دراصل اس سے مراد جاہلیت کے دور کی طرح موت کا اعلان ہے جو صرف فخر و مباہات کے لیے بڑے بڑے جھوٹے سچے القابات کے ذریعے سے کیا جاتا تھا، اس کا مقصد اطلاع کے بجائے فخر تھا اور وہ باقاعدہ پیش ور حضرات کے ذریعے سے بڑے اہتمام اور خرچ کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ (۲) یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ صحابہ شام میں شہیدہوئے اور آپ نے مدینہ میں انکی خبر دے دی۔ شام سے ان کی شہادت کی خبر بعد میں آئی۔