سنن النسائي - حدیث 1869

كِتَابُ الْجَنَائِزِ الْأَمْرُ بِالِاحْتِسَابِ وَالصَّبْرِ عِنْدَ نُزُولِ الْمُصِيبَةِ صحيح أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: أَرْسَلَتْ بِنْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ أَنَّ ابْنًا لِي قُبِضَ فَأْتِنَا، فَأَرْسَلَ يَقْرَأُ السَّلَامَ وَيَقُولُ: «إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ، وَلَهُ مَا أَعْطَى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَ اللَّهِ بِأَجَلٍ مُسَمًّى، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ»، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُقْسِمُ عَلَيْهِ لَيَأْتِيَنَّهَا، فَقَامَ وَمَعَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَرِجَالٌ، فَرُفِعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّبِيُّ وَنَفْسُهُ تَقَعْقَعُ، فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا هَذَا؟ قَالَ: «هَذَا رَحْمَةٌ، يَجْعَلُهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ، وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1869

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل مصیبت کی آمدکے وقت ثواب طلب کرنےکی نیت اور صبر کرنےکا حکم حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی (حضرت زینب رضی اللہ عنہا) نے آپ کو پیغام بھیجا کہ میرا بیٹا قریب الوفات ہے، آپ تشریف لائیں، آپ نے جوابی پیغام بھیجا، سلام کہا اور فرمایا: ’’اللہ ہی کا ہے جو اس نے لے لیا اور اسی کا ہے جو اس نے دے رکھا تھا، اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر چیز کی مدت مقرر ہے، لہٰذا اسے چاہیے کہ وہ صبر کرے اور (اگر کوئی مصیبت پہنچے تو) ثواب طلب کرنے کی نیت کرے۔‘‘ آپ کی بیٹی نے دوبارہ پیغام بھیجا اور آپ کو قسم دی کہ آپ ضرور تشریف لائیں۔ آپ اٹھے جبکہ آپ کے ساتھ حضرات سعد بن عبادہ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور بہت سے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنھم بھی تھے۔ (جب آپ پہنچے تو) بچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑایا گیا۔ بچے کا سانس اکھڑ رہا تھا۔ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ حضرت سعد نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’یہ رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے انھی پر رحم فرماتا ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔‘‘
تشریح : (۱)’’صبر‘‘ سے مراد شریعت کے حکم کا پابند رہنا ہے، نہ یہ کہ افسوس نہ کرے یا آنسو نہ بہائے، یہ تو فطری چیزیں ہیں جو ممنوع یا ناپسندیدہ نہیں۔ (۲) بات کو پختہ کرنے کے لیے یا کسی سے مطالبہ منوانے کے لیے قسم ڈال دینا درست ہے۔ (۳) اگر کوئی اس طرح قسم ڈال دے تو اس کی قسم کو پورا کرنا چاہیے۔ (۴) پہلے سلام پھر کلام ہونا چاہیے۔ (۵) مریض کی عیادت کرنی چاہیے، خواہ وہ اپنے سے کم تر ہی ہو یا چھوٹا بچہ ہی کیوں نہ ہو، اس سے اس کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ (۶) اہل فضل و صلاح کو مریض یا قریب الوفات شخص کے پاس دعا کے لیے دعوت دی جا سکتی ہے۔ (۷) آدمی اپنے امام سے کوئی نئی چیز دیکھے تو وضاحت پوچھ سکتا ہے۔ (۸) سوال میں حسن ادب ملحوظ خاطر رہنا چاہیے۔ (۹) اللہ کی مخلوق کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آنا چاہیے۔ (۱۰) آہ و بکا کے بغیر رونا جائز ہے۔ (۱)’’صبر‘‘ سے مراد شریعت کے حکم کا پابند رہنا ہے، نہ یہ کہ افسوس نہ کرے یا آنسو نہ بہائے، یہ تو فطری چیزیں ہیں جو ممنوع یا ناپسندیدہ نہیں۔ (۲) بات کو پختہ کرنے کے لیے یا کسی سے مطالبہ منوانے کے لیے قسم ڈال دینا درست ہے۔ (۳) اگر کوئی اس طرح قسم ڈال دے تو اس کی قسم کو پورا کرنا چاہیے۔ (۴) پہلے سلام پھر کلام ہونا چاہیے۔ (۵) مریض کی عیادت کرنی چاہیے، خواہ وہ اپنے سے کم تر ہی ہو یا چھوٹا بچہ ہی کیوں نہ ہو، اس سے اس کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ (۶) اہل فضل و صلاح کو مریض یا قریب الوفات شخص کے پاس دعا کے لیے دعوت دی جا سکتی ہے۔ (۷) آدمی اپنے امام سے کوئی نئی چیز دیکھے تو وضاحت پوچھ سکتا ہے۔ (۸) سوال میں حسن ادب ملحوظ خاطر رہنا چاہیے۔ (۹) اللہ کی مخلوق کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آنا چاہیے۔ (۱۰) آہ و بکا کے بغیر رونا جائز ہے۔