كِتَابُ الْجَنَائِزِ النَّهْيُ عَنْ الْبُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ صحيح أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سَيْفٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ قَالَ سَالِمٌ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ قَالَ عُمَرُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَذَّبُ الْمَيِّتُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ
کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل
میت پرآوازکے ساتھ رونے کی ممانعت
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میت کو اس کے گھر والوں کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔‘‘
تشریح :
مندرجہ بالا حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بیان کی گئی تو انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نہیں فرمایا۔ حضرت عمر یا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کو غلطی لگی۔ بات ی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرنے والی یہودی عورت کے گھر کے پاس سے گزرے تھے، اس کے گھر والے اس پر رو رے تھے، آپ نے فرمایا: ’’ی رو رے ہیں، اس کو عذاب ہو رہا ہے۔‘‘ آپ کا مطلب تو یہ تھا کہ اس کو اس کے کفر کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے مگر حضرت عمر یا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو غلطی لگی۔ انھوں نے سمجھا، رونے کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے، حالانکہ کسی کی غلطی اور گناہ سے دوسرے کو عذاب کیوں ہو؟ روتا کوئی ہے، عذاب میت کو۔ (لا تزر وازرہ وزر اخری) (بنی اسرآءیل ۱۵:۱۷)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ی بات انتہائی معقول ہے مگر صورت حال یہ ہے کہ یہ روایت ایک دو سے نہیں بلکہ بہت سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ے۔ کیا سب کو غلطی لگ گئی جبکہ حضرت عائشہ رضی الل عنہا تو موقع پر موجود بھی نہ تھیں؟ اور پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے مجتہد اور فقی صحابی بھی بات نہ سمجھ سکے؟ حضرت عائش رضی اللہ عنہا کا بیان کردہ واقعہ بھی صحیح ے مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نے دوسرے الفاظ (یعذب المیت……… الخ) ارشاد نہ فرمائے ہوں۔ باقی رہی بات (لا تزر وازرۃ وزر اخری) ’’کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔‘‘ (بنی اسرآءیل ۱۵:۱۷) کی تو علماء نے اس کی توجیہ میں کہا ہے کہ عذاب اس میت کو ہوتا ے جو اپنے گھر والوں کو رونے کا حکم دے کر مرا ہو یا اس نے رونے سے منع نہ کیا ہو جبکہ رونے کا رواج ہو۔ یا جو اپنی زندگی میں ایسے رونے کو اچھا سمجھتا تھا اور اس کی حوصلہ افزائی کرتا تھا۔ اس اعتبار سے مرنے والے پر گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب کا ہونا آیت (لا تزر وازرۃ ……… الخ) کے خلاف نہیں ہے کیونکہ اس میں اس کا ایمایا پسندیدگی شامل ہے۔
مندرجہ بالا حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بیان کی گئی تو انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نہیں فرمایا۔ حضرت عمر یا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کو غلطی لگی۔ بات ی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرنے والی یہودی عورت کے گھر کے پاس سے گزرے تھے، اس کے گھر والے اس پر رو رے تھے، آپ نے فرمایا: ’’ی رو رے ہیں، اس کو عذاب ہو رہا ہے۔‘‘ آپ کا مطلب تو یہ تھا کہ اس کو اس کے کفر کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے مگر حضرت عمر یا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو غلطی لگی۔ انھوں نے سمجھا، رونے کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے، حالانکہ کسی کی غلطی اور گناہ سے دوسرے کو عذاب کیوں ہو؟ روتا کوئی ہے، عذاب میت کو۔ (لا تزر وازرہ وزر اخری) (بنی اسرآءیل ۱۵:۱۷)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ی بات انتہائی معقول ہے مگر صورت حال یہ ہے کہ یہ روایت ایک دو سے نہیں بلکہ بہت سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ے۔ کیا سب کو غلطی لگ گئی جبکہ حضرت عائشہ رضی الل عنہا تو موقع پر موجود بھی نہ تھیں؟ اور پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے مجتہد اور فقی صحابی بھی بات نہ سمجھ سکے؟ حضرت عائش رضی اللہ عنہا کا بیان کردہ واقعہ بھی صحیح ے مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نے دوسرے الفاظ (یعذب المیت……… الخ) ارشاد نہ فرمائے ہوں۔ باقی رہی بات (لا تزر وازرۃ وزر اخری) ’’کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔‘‘ (بنی اسرآءیل ۱۵:۱۷) کی تو علماء نے اس کی توجیہ میں کہا ہے کہ عذاب اس میت کو ہوتا ے جو اپنے گھر والوں کو رونے کا حکم دے کر مرا ہو یا اس نے رونے سے منع نہ کیا ہو جبکہ رونے کا رواج ہو۔ یا جو اپنی زندگی میں ایسے رونے کو اچھا سمجھتا تھا اور اس کی حوصلہ افزائی کرتا تھا۔ اس اعتبار سے مرنے والے پر گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب کا ہونا آیت (لا تزر وازرۃ ……… الخ) کے خلاف نہیں ہے کیونکہ اس میں اس کا ایمایا پسندیدگی شامل ہے۔