سنن النسائي - حدیث 1847

كِتَابُ الْجَنَائِزِ النَّهْيُ عَنْ الْبُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ صحيح أَخْبَرَنَا عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَتِيكٍ أَنَّ عَتِيكَ بْنَ الْحَارِثِ وَهُوَ جَدُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو أُمِّهِ أَخْبَرَهُ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَتِيكٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ يَعُودُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ ثَابِتٍ فَوَجَدَهُ قَدْ غُلِبَ عَلَيْهِ فَصَاحَ بِهِ فَلَمْ يُجِبْهُ فَاسْتَرْجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ قَدْ غُلِبْنَا عَلَيْكَ أَبَا الرَّبِيعِ فَصِحْنَ النِّسَاءُ وَبَكَيْنَ فَجَعَلَ ابْنُ عَتِيكٍ يُسَكِّتُهُنَّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعْهُنَّ فَإِذَا وَجَبَ فَلَا تَبْكِيَنَّ بَاكِيَةٌ قَالُوا وَمَا الْوُجُوبُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ الْمَوْتُ قَالَتْ ابْنَتُهُ إِنْ كُنْتُ لَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ شَهِيدًا قَدْ كُنْتَ قَضَيْتَ جِهَازَكَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَوْقَعَ أَجْرَهُ عَلَيْهِ عَلَى قَدْرِ نِيَّتِهِ وَمَا تَعُدُّونَ الشَّهَادَةَ قَالُوا الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّهَادَةُ سَبْعٌ سِوَى الْقَتْلِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ الْمَطْعُونُ شَهِيدٌ وَالْمَبْطُونُ شَهِيدٌ وَالْغَرِيقُ شَهِيدٌ وَصَاحِبُ الْهَدَمِ شَهِيدٌ وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَهِيدٌ وَصَاحِبُ الْحَرَقِ شَهِيدٌ وَالْمَرْأَةُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَهِيدَةٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1847

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل میت پرآوازکے ساتھ رونے کی ممانعت حضرت جابر بن عتیک رضی اللہ عنہما نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبدالل بن ثابت رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کےل یے تشریف لائے تو انھیں موت کی بے ہوشی میں پایا۔ آپ نے انھیں پکارا ماگر وہ جواب نہ دے سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے [انا اللہ و انا الیہ راجعون] پڑھا اور فرمایا: ’’اے ابو الربیع! ہم تمھارے معاملے میں بے بس ہیں (ورنہ ہم تو تمھاری زندگی کے خواہش مند ہیں)۔‘‘ یہ سن کر عورتیں چیخ پکار کرنے لگیں۔ جابر بن عتیک انھیں چپ کرانے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رہنے دو لیکن جب واجب ہو جائے تو پھر کوئی عورت (آواز سے) نہ روئے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! واجب ہونا کیا ے؟ آپ نے فرمایا: ’’موت۔‘‘ ان کی بیٹی کہنے لگی: ابا جان! مجھے تو امید تھی کہ آپ شہید ہوں گے کیونکہ آپ نے اپنا سامانِ جہاد تیارکر رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ’’یقیناً اللہ تعالیٰ نے ان کی نیت کے مطابق ان کا ثواب لکھ دیا ہے۔ (پھر حاضرین سے پوچھا:) تم شہادت کسے سمجھتےہو؟‘‘ انھوں نے کہا: اللہ تعالیٰ کے راستے میں مارا جانا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ عزوجل کے راستے میں مارے جانے کے علاوہ بھی شہادت کی سات صورتیں ہیں: طاعون سے مر جانے والا شہید ہے۔ پیٹ کی تکلیف سے مر جانے والا بھی شہید ہے۔ غرق ہوکر مرنے والا بھی شید ہے۔ دب کر مر جانے والا بھی شہید ہے۔ اندرونی پھوڑے (کینسر و سرطان وغیرہ) سے مر جانے والا بھی شہید ے۔ آگ میں جل کر مر جانے والا بھی شہید ہے اور زچگی کے دوران میں مر جانے والی عورت بھی شہید ہے۔‘‘
تشریح : (۱)’’جب وہ مر جائے تو پھر کوئی نہ روئے‘‘ کیونکہ نوحہ و بین مرنے کے بعد ہوتے ہیں، پہلے نہیں، لہٰذا کسی کی موت سے پلے گھر والے رو سکتے ہیں کیونکہ رونا منع نہیں بلکہ نوحہ اور شکوہ شکایت منع ہے۔ جو موت کے بعدہی ہوتے ہیں۔ (۲) ’’شہادت فی سبیل اللہ‘‘ کے علاوہ شہادت کی سات صورتیں اور ہیں جن کی اس حدیث میں صراحت ہے۔ انھیں کس وجہ سے شہادت فی سبیل اللہ کے درجے میں رکھا گیا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہمیں بہرحال اس پر یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ حدیث میں مذکور افراد کو شہداء کے درجے سے سرفراز فرمائے گا۔ (۳) ’’سات صورتیں‘‘ بعض دیگر احادیث میں انفرادی طورپ ر شہادت کی اور بھی کئی صورتیں ذکر کی گئی ہیں۔ وہ اس روایت کے منافی نہیں کیونک سات میں زائد کی نفی نہیں۔ گویا بطور مثال یہ سات ذکر کی ہیں، ورنہ اور بھی ہیں۔ (۴) مریض کی عیادت کرنا ثواب کا کام ہے، نیز اس سے مریض کی دل جوئی ہوتی ہے۔ (۵) اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اس لیے اگر آدمی نے کسی کام کی نیت کی ہوئی ہو اور اس کے لیے تیاری مکمل ہے لیکن اسے کرنے کا موقع نہیں ملا، تو اسے اس کی نیت کے مطابق اس کام کے کرنے کا اجر مل جائے گا۔ (۶) عالم کو چاہیے ک مسئلہ سمجھانے کا ایسا انداز اپنائے کہ سامعین کے دل میں وہ راسخ ہو جائے، کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہے۔ (۷) اللہ تعالیٰ کا اس امت پر فضل عظیم ہے کہ اس نے اس کے لیے شہادت کے کئی اسباب بنائے تاکہ یہ امت ان کی بنا پر بلند درجات حاصل کرسکے۔ (۱)’’جب وہ مر جائے تو پھر کوئی نہ روئے‘‘ کیونکہ نوحہ و بین مرنے کے بعد ہوتے ہیں، پہلے نہیں، لہٰذا کسی کی موت سے پلے گھر والے رو سکتے ہیں کیونکہ رونا منع نہیں بلکہ نوحہ اور شکوہ شکایت منع ہے۔ جو موت کے بعدہی ہوتے ہیں۔ (۲) ’’شہادت فی سبیل اللہ‘‘ کے علاوہ شہادت کی سات صورتیں اور ہیں جن کی اس حدیث میں صراحت ہے۔ انھیں کس وجہ سے شہادت فی سبیل اللہ کے درجے میں رکھا گیا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہمیں بہرحال اس پر یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ حدیث میں مذکور افراد کو شہداء کے درجے سے سرفراز فرمائے گا۔ (۳) ’’سات صورتیں‘‘ بعض دیگر احادیث میں انفرادی طورپ ر شہادت کی اور بھی کئی صورتیں ذکر کی گئی ہیں۔ وہ اس روایت کے منافی نہیں کیونک سات میں زائد کی نفی نہیں۔ گویا بطور مثال یہ سات ذکر کی ہیں، ورنہ اور بھی ہیں۔ (۴) مریض کی عیادت کرنا ثواب کا کام ہے، نیز اس سے مریض کی دل جوئی ہوتی ہے۔ (۵) اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اس لیے اگر آدمی نے کسی کام کی نیت کی ہوئی ہو اور اس کے لیے تیاری مکمل ہے لیکن اسے کرنے کا موقع نہیں ملا، تو اسے اس کی نیت کے مطابق اس کام کے کرنے کا اجر مل جائے گا۔ (۶) عالم کو چاہیے ک مسئلہ سمجھانے کا ایسا انداز اپنائے کہ سامعین کے دل میں وہ راسخ ہو جائے، کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہے۔ (۷) اللہ تعالیٰ کا اس امت پر فضل عظیم ہے کہ اس نے اس کے لیے شہادت کے کئی اسباب بنائے تاکہ یہ امت ان کی بنا پر بلند درجات حاصل کرسکے۔