سنن النسائي - حدیث 1844

كِتَابُ الْجَنَائِزِ فِي الْبُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ صحيح أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا حُضِرَتْ بِنْتٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَغِيرَةٌ فَأَخَذَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَمَّهَا إِلَى صَدْرِهِ ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهَا فَقَضَتْ وَهِيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَكَتْ أُمُّ أَيْمَنَ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أُمَّ أَيْمَنَ أَتَبْكِينَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَكِ فَقَالَتْ مَا لِي لَا أَبْكِي وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْكِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي لَسْتُ أَبْكِي وَلَكِنَّهَا رَحْمَةٌ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُؤْمِنُ بِخَيْرٍ عَلَى كُلِّ حَالٍ تُنْزَعُ نَفْسُهُ مِنْ بَيْنِ جَنْبَيْهِ وَهُوَ يَحْمَدُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1844

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل میت پر رونا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک چھوٹی بیٹی کی وفات کا وقت آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اٹھایا اور اپنے سینے سے لگایا، پھر اپنا دست مبارک اس پر رکھا۔ بالآخر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فوت ہوگئیں۔ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا رونے لگیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے ام ایمن! تم روتی ہو جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمھارے پاس ہیں؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: میں کیوں نہ روؤں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رو رہے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں (تمھاری طرح) نہیں رو رہا بلکہ میرا رونا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بنا پر ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن ہر حال میں بہتر رہتا ہے (حتی کہ) اس کی جان نکل رہی ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی تعریفیں کرتا ہوتا ہے۔‘‘
تشریح : دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف آنسوؤں سے رو رہے تھے اور حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا (آپ کی پرورش کنندہ) آواز کے ساتھ رو رہی تھیں، اس لیے آپ نے انھیں روکا۔ باقی رہا آنسوؤں سے رونا تو یہ تو صدمے کے موقع پر فطری امر ہے۔ انسان کو اتنا کٹھور دل نہیں ہونا چاہیے کہ صدمات خصوصاً موت سے بھی متاثر نہ ہو۔ آنسوؤں سے رونا اس رحمت کا نتیجہ ے جو اللہ تعالیٰ نے مخلوقات میں رکھی ہے۔ اس سے انکار فطرت انسانیہ کا انکار ہے، پھر اس میں شکایت کا پہلو بھی ہے اور مومن رب العالمین کی شکایت کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ وہ تو مرتے ہوئے بھی رب العالمین کی تعریف کرتا ہے۔ اللھم اجعلنا من المومنین حقا۔ دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف آنسوؤں سے رو رہے تھے اور حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا (آپ کی پرورش کنندہ) آواز کے ساتھ رو رہی تھیں، اس لیے آپ نے انھیں روکا۔ باقی رہا آنسوؤں سے رونا تو یہ تو صدمے کے موقع پر فطری امر ہے۔ انسان کو اتنا کٹھور دل نہیں ہونا چاہیے کہ صدمات خصوصاً موت سے بھی متاثر نہ ہو۔ آنسوؤں سے رونا اس رحمت کا نتیجہ ے جو اللہ تعالیٰ نے مخلوقات میں رکھی ہے۔ اس سے انکار فطرت انسانیہ کا انکار ہے، پھر اس میں شکایت کا پہلو بھی ہے اور مومن رب العالمین کی شکایت کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ وہ تو مرتے ہوئے بھی رب العالمین کی تعریف کرتا ہے۔ اللھم اجعلنا من المومنین حقا۔